جڑانوالہ واقعے کے ذمہ داروں کو سزا دلوائیں گے: آئی جی پنجاب

آئی جی پنجاب عثمان انور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’جڑانوالہ واقعے پر ہمیں معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپنانا چاہیے بلکہ شرمندہ ہونا چاہیے۔‘

پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ جڑانوالہ واقعے میں ملوث تمام ملزمان اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں، جنہیں قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں گی۔

پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں مبینہ توہین مذہب کے ردعمل میں 16 اگست کو ہونے والی ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے دوران تین گرجا گھروں اور مسیحی کمیونٹی کے 100 سے زائد گھروں میں توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کی گئی تھی، جس میں ملوث ہونے کے الزام میں دو مسیحی نوجوانوں سمیت درجنوں افراد اس وقت پولیس حراست میں ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں آئی جی پنجاب نے سانحہ جڑانوالہ کے ساتھ ساتھ محکمہ پولیس کے مختلف منصوبوں، پولیس فورس کے کام کرنے کے طریقہ کار اور دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

جڑانوالہ واقعے کے حوالے سے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ اس میں ملوث تمام ملزمان اس وقت پولیس حراست میں ہیں، جن میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کارکنان بھی شامل ہیں۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’جڑانوالہ کے واقعے پر ہمیں معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپنانا چاہیے بلکہ ہمیں شرمندہ ضرور ہونا چاہیے۔ ہم نے زیادتی کی لیکن ہم نے اس کا ازالہ کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ ہم نے 36 میثاق سینٹر 48 گھنٹے میں بنا دیے۔‘

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ’مسلمانوں کے جذبات بھی سمجھنے ضروری ہیں اور اس میں علما کا انتہائی مثبت کردار سامنے آیا۔ ہم پادریوں کے پاس گئے، بشپس نے بہت تعاون کیا، سول سوسائٹی نے بہت اچھا کردار ادا کیا، انسانی حقوق کی تنظیموں نے ہم پر تنقید بھی کی اور ہمارے ساتھ بھی چلے۔‘

بقول ڈاکٹر عثمان انور: ’اب بات کرتے ہیں مسلمانوں نے جو زیادتی کی اس کی۔ پوری دنیا کا میڈیا کہہ رہا ہے کہ ہم نے زیادتی کی۔ ہم اس میں ہار نہیں مانیں گے بلکہ ہم اپنے بندوں کو سزائیں دیں گے۔

’ہم نے 300 سے زیادہ لوگوں کی تفتیش کر کے 180 سے زیادہ افراد گرفتار کر لیے ہیں۔ ہم نے انہیں پکڑنے کے لیے ویڈیوز دیکھیں، چہرہ پہچاننے والے سافٹ ویئرز استعمال کیے، آرٹیفشل ایلگورتھم استعمال ہوئے، موبائل ڈیٹا اور جیو فینسنگ کے ذریعے لوگ پکڑے۔‘

آئی جی پنجاب نے کہا کہ ’مسلمان پیغمبر اسلام کی گستاخی کو قبول نہیں کریں گے، نہ قبول کرنا چاہیے کیونکہ وہ برداشت نہیں کر سکتے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ مدعی ہونے کے باوجود ملزم بن جاتے۔ اس میں سب لوگ آئے اور اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ اس میں ایک مخصوص جماعت کے لوگ  بھی شامل ہیں، ان کے بارے میں تو کسی نے سوشل میڈیا پر بات نہیں کی۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’میں کسی سیاسی جماعت کا دفاع کرنے کی کوشش نہیں کر رہا، نہ میرا دفاع کرنا ضروری ہے۔ جو اسی میں سے لوگ قصوروار تھے، ان میں اس محلے کا ایک مرکزی شخص تھا جسے ہم نے گرفتار کیا۔‘

آئی جی پنجاب نے کہا کہ ’ہجوم میں لوگ شامل ہو جاتے ہیں لیکن علمائے دین اور سیاسی جماعتوں میں جو مثبت لوگ ہیں، ان کو مرکزی دھارے میں لانا بہت ضروری ہے، بجائے اس کے کہ ہم انہیں ایک سائیڈ پر دھکیل دیں۔‘

توہین مذہب کے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے سوال کے جواب میں آئی جی پنجاب نے جواب دیا: ’تین قسم کے واقعات ہو رہے ہیں، جن میں سے ایک تو اصل میں ہو رہے ہیں۔ جڑانوالہ اور سرگودھا، دو جگہوں پر توہین مذہب کا واقعہ اصل میں ہوا اور منصوبہ بنا کر یہ زیادتی کی گئی۔

’دوسرے واقعات وہ ہیں جن میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہوتے اور وہ کچھ بھی دعویٰ کر لیتے ہیں۔ ان کو الگ سے دیکھنا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’پولیس فوری طور پر ایکشن لیتی ہے اور اس کی مثال ننکانہ میں ہونے والے واقعے کی ہے جس میں لوگوں نے گستاخی کرنے والے کو مار دیا، لیکن یہاں بیسیوں واقعات ایسے ہیں جن میں ہم نے لوگوں کو اپنی حفاظتی تحویل میں رکھا اور ان کو سزا بھی دلوا رہے ہیں اور ان کا علاج بھی کروا رہے ہیں۔‘

بقول آئی جی پنجاب: ’تیسرے کیس وہ ہیں جس میں غلط بیانی کی جاتی ہے جو بہت زیادتی والی بات ہے۔ اس میں ہمارے علما ہمارے ساتھ ہیں۔ لازمی بات ہے کہ مسلمانوں کے جذبات بھڑکے ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات کو ٹھنڈا کر کے وہاں تک لانا کہ وہ اس بات کو سمجھ جائیں، اس میں میڈیا ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے کہ جہاں غلط الزام لگایا گیا وہاں اصل ملزم کو بھی پولیس پکڑے گی۔‘

انہوں نے یہ بھی درخواست کی کہ اگر کسی جگہ پر ایسا کوئی واقعہ ہو رہا ہو یا کسی کمیونٹی پر الزام لگایا جا رہا ہو تو مسجد کا لاؤڈ سپیکر اور سوشل میڈیا ملک کے امن کے لیے استعمال کریں نہ کہ ملک کی تباہی کی خاطر۔

پولیس میں کرپشن کا تاثر اور احتساب کے لیے اقدامات

جنوری 2023 میں آئی جی پنجاب کا عہدہ سنبھالنے والے ڈاکٹر عثمان انور ایک متحرک پولیس افسر دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے مختلف قسم کے نئے منصوبوں کی بنیاد رکھی ہے، جن میں انسانوں کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کے لیے اقدامات بھی شامل ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عثمان انور نے بتایا کہ پنجاب پولیس سے دو لاکھ افراد منسلک ہیں، جنہوں نے 14 کروڑ لوگوں کی خدمت کرنی ہے جبکہ ملک کے 24 کروڑ عوام کو محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے اور یہ صرف تب ہی ممکن ہو گا جب ہمارے مشکل حالات اور ملکی معاشرتی چیلنجز میں آپ اس کانسٹیبلری کی حوصلہ افزائی کریں گے، انہیں اپنے ساتھ چلائیں گے اور ان کی فلاح و بہبود کریں گے۔

پولیس کے ادارے میں کرپشن اور احتساب کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ڈاکٹر عثمان انور نے بتایا کہ انہیں ادارے میں کرپشن سے انکار نہیں لیکن اس ادارے کے 100 فیصد لوگ کرپٹ نہیں ہیں اور احتساب کے لیے بھی ایک میکانزم بنایا گیا ہے۔

بقول ڈاکٹر عثمان انور: ’میں نہیں کہتا کہ ادارے مں کرپشن نہیں ہے، کرپشن بالکل ہوتی ہے لیکن 100 فیصد اس ادارے کے لوگ کرپٹ نہیں ہوتے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’ہمارا احتساب کا اپنا ایک طریقہ کار یا میکنزم ہے۔ اس میں 1718 پر کالز آتی ہیں، ایمرجنسی ریلیف کے لیے انکوائریز ہیں، انٹرنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو بنا ہوا ہے، اس کے علاوہ نیب ہے اور اینٹی کرپشن ہے، لیکن ہم نے سروسز کو تھانے سے الگ کر دیا ہے۔‘

آئی جی پنجاب نے بتایا کہ انہوں نے ’خدمت مراکز‘ بھی قائم کیے ہیں۔ ’اگر آپ کو کوئی سرٹیفکیٹ لینا ہے تو اس کے لیے آپ کو تھانے نہیں جانا بلکہ آپ خدمت مرکز میں جائیں گے۔ اسی طرح ہسپتال میں آپ خدمت کاؤنٹر جائیں گے۔ ہمارے معاشرے کے کمزور طبقے یعنی ٹرانس جینڈرز تحفظ سینٹر جائیں گے۔

’اسی طرح اگر آپ تھانے آئیں گے تو یہاں بھی فرنٹ ڈیسک پر آپ کا سامنا سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک ایسے پولیس اہلکار سے ہوگا جس نے پولیس کی تربیت نہیں بلکہ پبلک سروس کی تربیت لی ہو گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تحفظ مراکز میں ٹرانس جینڈرز کو رکھا گیا ہے اور وہاں 12 ہزار سے زائد درخواستیں وصول ہوچکی ہیں۔

ڈاکٹر عثمان انور نے ایف آئی آر ریکارڈز کے حوالے سے بھی گفتگو کی اور بتایا: ’ہم نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو شامل کر کے مختلف ایپلی کیشنز بنائی ہیں اور 70 ہزار ایف آئی آرز کو ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے۔ اب آپ کو ایف آئی آر لینے کے لیے تھانے نہیں جانا پڑے گا بلکہ وہ آپ کو خدمت ایپ پر پی ڈی ایف میں دستیاب ہوگی۔ ان ایپلی کیشنز کے ذریعے آپ پولیس کے ساتھ رابطہ بنا لیں گے۔‘

بقول آئی جی پنجاب: ’بعض اوقات ہمیں اعلیٰ افسران کا احتساب کرنا پڑتا ہے لیکن ہم آپ کو ڈیڑھ کروڑ لوگوں کا ڈیٹا بیس دے سکتے ہیں، جنہیں ہم نے خدمت کر کے دی ہے اور جو یہ کہیں گے کہ ہم نے پیسے نہیں لیے۔‘

احتساب کے بعد سزاؤں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہ ایک مسلسل عمل ہے جو چل رہا ہوتا ہے۔ ’سزا کے طور پر ہمارے ہاں انکوائری ہوتی ہے اور اس کے بعد معطلی، برخاستگی، عہدے سے واپسی، ترقی کا روک دیے جانا اور دیگر سزائیں دی جاتی ہیں۔‘

عہدے کے دباؤ کے حوالے سے سوال کے جواب میں آئی جی پنجاب نے کہا: ’پریشر زیادہ سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے کہ نوکری چلی جائے گی؟ لیکن مجھے پریشر یہ ہوتا ہے کہ ہم بروقت اپنی سروس ڈیلیور کر دیں۔ کوئی شخص اگر قتل ہو جاتا ہے، کوئی ریپ ہو جاتا ہے، ڈکیتی ہو جاتی ہے یا کسی کا بچہ اغوا ہو جاتا ہے یا آپ کی فورس کا کوئی اہلکار یہ کہتا ہے کہ میرے چار بچے ہیں، جو سبھی معذور ہیں، ان سب چیزوں کا پریشر لینا چاہیے، اس کے علاوہ زندگی گزرنے کا علم نہیں ہوتا تو نوکری کا کیا پتہ چلنا ہے۔‘

’ڈھائی سو کروڑ روپے کانسٹیبلری پر خرچ کریں گے‘

پنجاب پولیس میں اصلاحات اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈاکٹر عثمان انور نے بتایا: ’سب خرچہ ہماری تنخواہوں سے کٹتا ہے، حکومت سے اس کا قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ پنجاب پولیس کے ہر جوان کی تنخواہ سے تین فیصد کٹتا ہے، جسے انویسٹ کیا جاتا ہے۔

’ہم نے کچھ زمین اور فلاح و بہبود کے منصوبے اسی انویسٹمنٹ سے بنائے اور ان میں سے ہم اس سال ساڑھے چار سو کروڑ روپے کمانے جا رہے اور اس میں سے ڈھائی سو کروڑ روپے ہم اپنی کانسٹیبلری پر خرچ کریں گے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے پولیس اہلکاروں کی سکالر شپس، بچوں کی شادیوں اور دیگر فلاح و بہبود کے کام ہوں گے اور کچھ کاموں میں ہم بہتری لائیں گے۔

وکٹم سپورٹ آفیسر ٹریننگ

انٹرویو کے دوران آئی جی پنجاب نے بتایا کہ انہوں نے پولیس فورس کی 2600 خواتین اہلکاروں کو یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے ساتھ مل کر وکٹم سپورٹ آفیسر کی بین الاقوامی ٹریننگ کروائی ہے۔

’اس میں انہیں تربیت دی گئی ہے کہ اگر کوئی متاثرہ شخص ان کے پاس آتا ہے تو اس کی نفسیات کیا ہے؟ وہ کیا سوچتا ہے؟ اسے کس طرح سے ڈیل کرنا ہے؟ انہیں انصاف کیسے دلوانا ہے؟‘

آئی جی پنجاب نے بتایا کہ انہوں نے بتایا کہ یہ خواتین اہلکار خدمت مراکز، فرنٹ ڈیسک، تھانوں کے اندر، تفتیش میں پوچھ گچھ کے دوران اور تحفظ مراکز میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا: ’ہم نے وکٹم سپورٹ ٹرانس جینڈر بھی رکھے ہیں جو ہر تحفظ مرکز میں موجود ہیں اور بہترین کام کر رہے ہیں۔ انہیں بھی ہم نے امریکہ کے ساتھ مل کر تربیتی کورس کروائے ہیں کیونکہ ٹرانس جینڈر بھی انسان ہیں کوئی چیز نہیں۔‘

بقول ڈاکٹر عثمان انور: ’یہ ہے پنجاب پولیس کا نیا چہرہ اور ہم آپ کو گارنٹی دیتے ہیں کہ ہماری یہ بچیاں، جنہوں نے تربیت لی ہے، وہ ہمارے اگلے 40 سال کا مستقبل ہوں گی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ وکٹم سپورٹ آفیسر کی تربیت ہم صرف خواتین کو نہیں بلکہ مرد اہلکاروں کو بھی کروا رہے ہیں۔ ’اس تربیتی کورس کی ویڈیو بھی بنتی ہے تاکہ وہ یوٹیوب پر اپ لوڈ ہو اور ہمارے کانسٹیبلز بھی اس سے سیکھیں۔ اسی طرح ایس ایچ اوز کی بھی تربیت کروا رہے ہیں۔‘

اینیمل ریسکیو سینٹر

آئی جی پنجاب جانوروں کے حقوق کے لیے بھی کافی سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ 31 اگست کو انہوں نے لاہور میں جانوروں کے لیے پولیس اینیمل ریسکیو سینٹر کا بھی افتتاح کیا۔

یہ سینٹر جانوروں کے حقوق کی تنظیم ’جے ایف کے‘ کے اشتراک سے قائم کیا گیا ہے، جہاں ڈاکٹرز، ایمبولینس، ریسکیو سٹاف اور پولیس ٹیم موجود ہوگی۔ 

اینیمل ریسکیو سینٹر کے لیے وسائل کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا: ’اس کام کے لیے ہمارے پاس موجود دو لاکھ پولیس فورس میں سے اگر ہم ایک سے دو اہلکار ڈیوٹی پر لگا دیں گے اور اس کے بعد رضا کار بھی یہ کام کر رہے ہیں، جو اس کو فنڈ بھی کر رہے ہیں۔ لوگ خود سامنے آئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم نے این جی اوز کو جانوروں کے ہسپتالوں سے جوڑا ہے، ہم نے صرف سسٹم بنایا ہے۔ ہم یہ نہیں کر رہے کہ پولیس والے انسانوں کو چھوڑ کر جانوروں کو بچانے چل پڑے ہیں۔ ہم نے بس ایک سسٹم بنایا ہے جو پہلے موجود نہیں تھا۔ ہم تحفظ دے رہے ہیں انسانوں کو بھی اور جانوروں کو بھی۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’یہ پولیس کا ایک چھوٹا سا قدم ہے، جانوروں کے حقوق کا قانون ہے اور اس ملک میں اسی کو لاگو کرنا ہے۔ ہم سب کچھ حکومت کی مرضی سے کر رہے ہیں اور اس پر ہم اپنے وسائل استعمال نہیں کر رہے، بس رضاکاروں کو اکٹھا کرکے دیگر اداروں کے ساتھ جوڑ رہے ہیں اور ایک بہت اہم انسانیت کا فریضہ سرانجام دینے جارہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان