کیا مشترکہ کمیٹی، میثاق سینٹر جڑانوالہ جیسے واقعات روک سکیں گے؟

پاکستان علما کونسل کا کہنا ہے کہ مشترکہ کمیٹی اقلیتوں سے ہم آہنگی کی فضا بنا کر قیام امن میں کردار ادا کرے گی۔ تاہم مائنارٹیز الائنس کے مطابق پہلے امن کمیٹیاں بھی موجود تھیں اور سکیورٹی ادارے بھی فعال، لیکن اقلیتوں کا تحفظ نہیں ہوا۔

پولیس اہلکار 20 اگست 2023 کو جڑانوالہ میں جلائے گئے سالویشن آرمی چرچ پر پہرہ دے رہا ہے (غضنفر مجید/ اے ایف پی)

پنجاب حکومت نے جڑانوالہ واقعے کے بعد میثاق سینٹرز قائم کرنا شروع کیے ہیں جن میں اقلیتی برادری کے متاثرین اپنی شکایات درج کروا سکیں گے اور پولیس فوری طور پر ان شکایات پر کارروائی کی پابند ہو گی۔ 

قبل ازیں پنجاب میں بین المذاہب آہنگی کو فروغ دینے کے لیے گذشتہ کئی دہائیوں سے امن کمیٹیاں کام کرتی رہی ہیں۔

توہین مذہب کے الزام میں جڑانوالہ کی مسیحی برادری کے گھروں اور چرچوں کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد پاکستان علما کونسل اور چرچ آف پاکستان نے بھی ایک متفقہ کمیٹی تشکیل دی ہے۔

تاہم سوال یہ ہے کہ امن کمیٹیوں کے بعد کیا میثاق سینٹر یا متفقہ کمیٹی آئندہ اس طرح کے پرتشدد واقعات کی روک تھام اور مذہبی منافرت کو روکنے میں کردار ادا کر سکے گی یا نہیں؟

پاکستان علما کونسل کا دعویٰ ہے کہ مشترکہ کمیٹی اقلیتی برادری سے ہم آہنگی کی فضا بنا کر قیام امن میں کردار ادا کرے گی جب کہ مائنارٹیز الائنس پاکستان کے مطابق ’پہلے امن کمیٹیاں بھی موجود تھیں اور سکیورٹی ادارے بھی مکمل فعال، لیکن اقلیتوں کا تحفظ یقینی نہیں بنایا جا سکا۔

’آئندہ امید کرتے ہیں کہ غیر مسلموں کے خلاف پرتشدد واقعات روکنے کے لیے بننے والی مشترکہ کمیٹی یا میثاق سینٹر موثر کردار ادا کریں گے۔‘

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی تحقیقات میں جڑانوالہ واقعے میں ’مقامی مذہبی رہنماؤں کے ملوث ہونے‘ کی نشاندہی کی گئی ہے۔

جڑانوالہ کی مسیحی برادری کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔

مشترکہ کمیٹی اور میثاق سینٹرز کا قیام

جڑانوالہ واقعے کے بعد پاکستان علما کونسل اور چرچ آف پاکستان کے عہدے داروں نے ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے کر امن قائم کرنا ہے۔

علما کونسل پاکستان کے چیئرمین علامہ طاہر اشرفی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نظریہ پاکستان کے تحت ہمارے ملک میں اقلیتوں کو آزادی سے رہنے کے مکمل مذہبی، قانونی و معاشرتی حقوق حاصل ہیں۔‘

’اس حوالے سے پاکستان نے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے یونین کونسل کی سطح پر امن کمیٹیاں قائم کیں۔

’سکیورٹی اداروں اور علما نے بھی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ہمیشہ کردار ادا کیا۔ جہاں بھی جڑانوالہ جیسا پرتشدد واقعہ پیش آیا، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی گئی، آئندہ بھی کی جائے گی۔‘

طاہر اشرفی کے بقول ’چرچ آف پاکستان اور علما کونسل کی جو مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی وہ مسسیحی برادری کے تمام تحفظات کو دور کرنے میں عملی اقدامات کر رہی ہے۔

’اسی طرح جو پنجاب بھر میں میثاق سینٹر قائم کیے گئے۔ ان کا مقصد بھی اقلیتوں کے مسائل حل کرنا ہے اور انہیں تحفط فراہم کرنا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اسلام امن و بھائی چارے کی تلقین کرتا ہے لہٰذا کسی بھی صورت انتہا پسندوں کو امن و امان خراب کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘

پنجاب پولیس سیکرٹریٹ کے مطابق میثاق سینٹرز میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افسران تعینات کیے جائیں گے۔

نیز ان سینٹرز پر غیر مسلم شہریوں کی شکایات اور مسائل حل کرنے کے لیے فوری کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ان کے ہر قسم کے مسائل ایک درخواست سے حل ہوسکیں گے اور امن وامان خراب کرنے والوں سے متعلق بھی ان سینٹرز میں فوری مدد کے لیے رجوع کیا جا سکے گا۔

میثاق سینٹرز اور مشترکہ کمیٹی قیام امن کے لیے کتنی موثر؟

مینارٹیز الائنس پاکستان کے چیئرمین اکمل بھٹی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سیالکوٹ، گوجرہ، جوزف کالونی اور اب جڑانوالہ میں توہین مذہب کے الزام میں مسیحی برادری کو تشدد کانشانہ بنایا گیا، گھروں اور چرچوں میں توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ کیا گیا، لیکن امن کمیٹیاں تو کیا پولیس بھی امن قائم کرنے میں ناکام رہی۔‘

’جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو حکمران اور سرکاری حکام متحرک ہوتے ہیں، کمیٹیاں بنتی ہیں، متاثرین سے اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے لیکن پھر سب بھول جاتے ہیں اور کسی نئے واقعے کا انتطار کیا جاتا ہے۔

’ہم سمجھتے ہیں کمیٹیاں یا سینٹرز جو بھی بنیں وہ عملی کام کریں، امن کمیٹیوں کی طرح چرچوں میں کیک کاٹنے اور سیمینار میں خطابوں تک محدود نہ رہیں۔‘

اکمل بھٹی نے کہا کہ ’چرچ آف پاکستان اور علما کونسل کی مشترکہ کمیٹی ہو یا میثاق سینٹرز انہیں روایتی طریقے چھوڑ کر پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے جامع حکمت عملی بنانی چاہیے۔‘

’مذہبی جماعتوں اور مسالک سے بات چیت کر کے انہیں اس بات کا پابند کیا جانا چاہیے کہ کسی کو بھی کسی غیر مسلم سے شکایت ہو تو اس کے خلاف عدالت، پولیس یا مشترکہ کمیٹی کے عہدے داروں سے رجوع کرنا چاہیے۔

’جو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے اسے پہلے ہی قابو کر لیا جائے تو اس طرح کے پرتشدد واقعات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔‘

ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ

 پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے  فیکٹ فائنڈنگ مشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’16 اگست کو جڑانوالہ میں مقامی مسیحی برادری پر ہجوم نے وحشیانہ حملے کر کے کم ازکم 24 گرجا گھروں، کئی چھوٹی عبادت گاہوں اور درجنوں گھروں کو آگ لگائی اور لوٹ مار کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ کے مطابق: ’ایک مسیحی شخص پر توہینِ مذہب کے الزامات لگنے اور افواہیں پھیلنے کے بعد مسجد کے سپیکرز سے اعلانات کے ذریعے مسلمانوں کو کارروائی کرنے پر اکسایا گیا جس کے باعث قصبے میں ہزاروں لوگ جمع ہو‏ گئے اور پھر انہوں نے مسیحی عبادت گاہوں اور گھروں کا رخ کر لیا۔ ان واقعات میں مقامی مذہبی رہنما بھی ملوث پائے گئے ہیں۔‘

ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی اور سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزيکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب کی سربراہی میں تحقیقات کرنے والے مشن نے رپورٹ میں مزید کہا: ’اِس شبہے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ یہ ہجوم (جو حملوں کا سبب بنا) بغیر سوچے سمجھے یا اچانک جمع نہیں ہوا بلکہ مقامی مسیحوں کے خلاف وسیع تر نفرت انگیز مہم کا حصہ تھا۔‘

’مشن کو احساس ہے کہ پولیس کے پاس ایک چھوٹے قصبے میں بڑے پیمانے کے تشدد پر قابو پانے کے لیے مناسب  انتظامی وسائل اور قانون کے نفاذ سے متعلق دیگر ذرائع دستیاب نہیں تھے۔

’مذہبی اقلیتوں کی جائے عبادت کے تحفظ کے لیے الگ پولیس فورس کے قیام کے حوالے سے عدالت ِعظمٰی کے 2014 کے حکم نامے پر فوری عمل درآمد کیا جائے اور اِس مقصد کے لیے درکار مالی وسائل کی فراہمی میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔

علامہ طاہر اشرفی نے اس رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ ’جڑانوالہ واقعے میں مقامی مذہبی رہنما ہو یا کوئی اور، قانون سے کوئی بالاتر نہیں، جو بھی ملوث ہو گا اسے قانون کے مطابق سزا ضرور ملے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان