جڑانوالہ واقعہ: سامان چھوڑ دیا اور جان بچالی، متاثرین

16 اگست کو جڑانوالہ میں مبینہ توہین مذہب کے ردعمل میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے دوران جلائے گئے گھروں میں سے ایک میں مسیحی خاندان کی دو یتیم لڑکیوں کے جہیز کا سامان بھی جلا دیا گیا۔

صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں مبینہ توہین مذہب کے ردعمل میں 16 اگست کو ہونے والی ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے دوران تین گرجا گھروں اور مسیحی کمیونٹی کے 100 سے زائد گھروں میں توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کی گئی۔

انہی بد نصیب گھروں میں ایک گھر ایسا بھی ہے جہاں ایک مسیحی خاندان کی دو لڑکیوں کے جہیز کا سامان بھی جلا دیا گیا۔

اہل خانہ کے بقول جلایا جانے والا جہیز کا سامان لڑکیوں نے اپنی ماں کے ساتھ مل کر لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے کئی سالوں میں بنایا تھا اور تین ماہ بعد ان کی شادی طے ہے۔

متاثرہ لڑکی ثنا فضل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہے اور ان کے والد فوت ہوچکے ہیں جبکہ والدہ نے لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے انہیں پالا ہے۔

بقول ثنا وہ گذشتہ کئی سالوں سے محنت مزدوری کر کے جہیز جمع کر رہے تھے لیکن بدھ کو جب انہیں سامان یا جان بچانے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو انہوں نے جان تو بھاگ کر بچا لی لیکن سامان کا ایک ٹکڑا نہیں بچا۔ ’فریج، ایل سی ڈی، کپڑے، زیور، فرنیچر سمیت جو کچھ گھر میں تھا، کچھ کو لوٹ لیا گیا اور جو بچا جلا دیا گیا۔‘

ان کی بہن بیتو فضل نے بتایا: ’جب 16 تاریخ کی صبح دھاوا بولا گیا تو تھوڑی ہی دیر میں یہاں سے جان بچا کر بھاگنے کا کہا گیا۔ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے لیکن واپس آئے تو کچھ بھی نہیں بچا۔ ہم بہنوں کی شادیاں کیسے کریں گے، ان کا جہیز بھی لوٹ لیا گیا اور باقی جلا دیا گیا ہے۔ ‘

اسی علاقے کی رہائشی بیوہ خاتون ممتاز بی بی نے بتایا کہ ان کے خاوند سرکاری ملازم تھے۔ انہیں ریٹائرمنٹ کا پیسہ ملا تو اس سے انہوں نے گھر بنایا اور فریج اور دیگر سامان بھی خریدا۔

ممتاز بی بی نے بتایا کہ انہوں نے پوتی کی سالگرہ کے لیے کیک اور تحفے لا کر رکھے تھے، لیکن یہ واقعہ ہوگیا اور اب کچھ نہیں بچا۔

’میرے سامنے 16 تاریخ کی صبح بچوں کی زندگیاں اور سامان تھا، ہم نے بھاگ کر جان بچائی لیکن سامان تباہ ہوگیا۔ گھر بھی توڑ پھوڑ دیا گیا۔‘

’اس طرح کا واقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا‘

جڑانوالہ کے مسیحی رہنما پرویز چوہدری نے بتایا کہ اس شہر میں مسیحی برادری کی آبادی 10 سے 12 ہزار کے قریب ہے، جو مسلم آبادی کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں لیکن ’اس طرح کا واقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’جس طرح یہ تباہی کی گئی ہے، ہمارے غریب لوگ معلوم نہیں، دوبارہ کس طرح خود کو سنبھالیں گے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’جن دو نوجوانوں بھائیوں پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تو، ان کے گھر تو کیا ارد گرد کے گھروں کو بھی مکمل تباہ کر دیا گیا ہے۔‘

علاقے کے رہائشی ثنا اللہ ثانی نے بتایا کہ وہ مسلمان ہیں اور جن لڑکوں پر توہین مذہب کا الزام لگا، ان کے والد میرے دوست ہیں۔ بقول ثنا اللہ: ’ہم سب یہاں پُر امن طریقے سے رہتے ہیں، کبھی کوئی ایسا مسئلہ پیش نہیں آیا۔ وہ (گرفتار لڑکوں کے والد) ایک لڑکیوں کے سکول میں ملازم ہیں اور کبھی ان کے حوالے سے کوئی متنازع بات نہیں سنی۔ جو الزام لگائے جا رہے ہیں، اس بارے میں تو کچھ نہیں معلوم البتہ اس معاملے کی چھان بین ہونی چاہیے۔‘

انسانی حقوق کا تحفظ اور سکیورٹی صورت حال

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئر پرسن حنا جیلانی نے بھی جڑانوالہ میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔

اس موقعے پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات تسلسل سے اقلیتوں کے خلاف ہو رہے ہیں اور انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

بقول حنا جیلانی: ’ریاستی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو کنٹرول کریں۔‘

علاقے میں سکیورٹی ڈیوٹی پر مامور ڈی ایس پی ثنا اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پولیس قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ شہر میں پولیس کا مکمل کنٹرول ہے اور ہر جگہ پولیس اہلکار موجود ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام مسیحی برادری اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہی ہے۔ جنہوں نے انتشار پھیلایا، جلاؤ گھیراؤ کیا، وہ قانون سے نہیں بچ سکتے جبکہ 100 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین