جلی عمارتیں اور خوفزدہ لوگ: جڑانوالہ کا آنکھوں دیکھا حال

انڈپینڈنٹ اردو کے لاہور میں نامہ نگار نے جمعرات کا پورا دن جڑانوالہ میں گزارا جہاں وہ کرسچن کالونی اور عیسیٰ نگری گئے اور متاثرین سے ملاقاتیں کیں۔

کرسچن کالونی اور عیسیٰ نگری کے اکثر رہائشی خوف کے باعث اپنے گھروں کو واپس آنے سے ڈر رہے ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

لاہور سے موٹر وے (ایم ٹو) پر ڈیرھ گھنٹے بعد جڑانوالہ انٹر چینچ آتا ہے جہاں سے شہر کو جانے والی سڑک پر گاڑی موڑتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ جڑانوالہ پسماندہ سا شہر ہو گا۔

جیسے جیسے آگے بڑھیں تو بڑے شہروں کی طرح بلند اور عالی شان عمارتوں کے بجائے کھیت کھلیان ہی دکھائی دیتے ہیں۔ شہری آبادی کے آغاز میں چھوٹی بڑی دوکانیں شروع ہو جاتی ہیں۔

اسی روڑ پر شہر کے درمیان میں لکڑ منڈی روڈ ہے، جس پر سنیما چوک واقع ہے۔ اس سے ملحقہ مسیحی بستیوں ۔ کرسچن کالونی اور عیسیٰ نگری ہیں، جہاں توہین مذہب کے الزام میں بدھ کے روز چرچ اور گھر نذر آتش کرنے کے واقعات پیش آئے۔

سنیما چوک کی طرف جانے والی لکڑ منڈی روڈ کے داخلی راستے کو پولیس نے خاردار تاریں لگا کر بند کر رکھا تھا۔ شہر کی دیگر شاہراہیں اور بازار تو جزوی طور پر کھلے تھے لیکن یہ علاقہ پوری طرح سنسان پڑا تھا۔ پولیس اور رینجرز اہلکار دیواروں اور شیڈز کے سایوں میں بیٹھے گرمی کی سختی برداشت کر رہے تھے۔

کرسچن کالونی کا پوچھنے سے پہلے ہی بتا دیا گیا کہ اس طرف ہے، مین روڈ سے ہی گلیوں کو قناتیں لگا کر بند کیا ہوا تھا۔ جب گلیوں کے اندر داخل ہوئے تو ہر گھر کا دروازہ یا ٹوٹا ہوا تھا یا جل کر زمین پر گرا پڑا تھا۔  تالے ٹوٹے ہوئے۔ ہر گھر میں ٹوٹا اور جلا ہوا سامان بربادی کی داستان پیش کر رہا تھا۔

جب چرچ کے سامنے پہنچے تو عمارت کے باہر سامان جلا پڑا تھا۔ بغیر دروازے کے چرچ کے اندر کا منظر بھی دکھائی دے رہا تھا۔ آتشزدگی سے دیواروں پر بنے سلیب کے نشان اور نقش و نگار بھی آگ کی سیاہی مٹا چکی تھی۔ عبادت کے لیے رکھی مقدس علامات بھی ٹوٹ کر بکھری پڑی تھیں۔

 آس پاس کچھ یہاں کے مکین اپنے گھروں کو دیکھنے فیملیز کے بغیر آئے ہوئے تھے۔ ان کے غمزدہ اور بھرائی آنکھوں سے اندازہ ہو گیا کہ گھر کا مالک کون ہے۔ خاص طور پر خواتین جذبات پر قابو رکھے بغیر روتی دہائیاں دیتی سنائی دیں۔ مختلف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی وہاں اظہار افسوس کے لیے پہنچ رہی تھیں۔

جب کرسچن کالونی سے عیسیٰ نگر کی طرف جانے لگے تو گلیوں میں نالیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ہر طرف گندہ پانی جمع تھا۔ چھوٹے چھوٹے دو سے تین مرلے کے بغیر ترتیب بنے گھر ان بستیوں میں بسنے والوں کی غربت کا پتہ دے رہے تھے۔ یہاں رہنے والے مسلمان بھی اس واقعہ پر شدید ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔

عیسیٰ نگری کی طرف ایک اور چرچ، جس میں بچوں کا سکول بھی تھا، بھی مکمل تباہ کیا ہوا تھا۔ چرچ کی عمارت کے اندر کچھ بھی سلامت نہیں تھا۔ پوری طرح آباد چرچ اور سکول کھنڈر کا منظر پیش کر رہے تھے۔ پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تعینات تھے اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔

وہاں کے رہائشی محمود احمد نے افسردہ چہرے کے ساتھ بتایا: ’بہت ظلم ہوا ہے۔ ہم نے اس طرح کا حجوم نہیں دیکھا۔ یہاں کے تو تھے ہی نہیں۔ ٹرالیاں بھر بھر کر جو دیہاتوں سے آئے ہوئے لوگ تھے ان کے ہاتھوں میں تو باقاعدہ ہتھوڑے اور ڈنڈے، سوٹے تھے۔ جیسے کسی جنگ کو جیتنے کی تیاری سے آئے ہوں۔

’وہ تو مسلمانوں کے گھروں کو بھی ٹارگٹ کر رہے تھے۔ ہم نے اندر سے قرآن اٹھا کر انہیں دکھائے یقین دلایا کہ ہم مسلمان ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمود کے بقول نہ بڑے کا لحاظ کیا نہ چھوٹے پر رحم۔ بس وہ گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ کرتے رہے۔

’مسیحی لوگوں نے بھاگ کر جان بچائی بیشتر شہر ہی چھوڑ گئے اور بعض جن کے رشتہ دار قریب نہیں رہتے تھے وہ تو کھیتوں میں رات گزارنے پر مجبور ہوئے۔ سب سے زیادہ لوگ قریبی شہر فیصل آباد چلے گئے۔ جانے کے لیے سواریاں نایاب تھیں لوگوں نے بھاگ کر گلیوں میں چھپ کر جانیں بچائی۔‘

مسیحی سوشل ورکر، جن کا اپنا گھر توڑ پھوڑ کا شکار ہوا نے کہا: ’کسی پر اگر توہین مذہب کا الزام تھا بھی تو اس کے خلاف پولیس کو درخواست دیتے۔ یہ کونسا طریقہ ہے کہ پورے جڑانوالہ میں مسیحی آبادی اور چرچ نشانہ بنا دیے۔ اگرچہ پولیس نے سکیورٹی فراہم کر دی ہے لیکن ہمیں افسوس ہے کہ وزیراعلی پنجاب نے اتنے بڑے واقعہ پر بھی یہاں دورہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔‘

انہوں نے مزید کہا:’خوف ابھی تک برقرار ہے۔ دیکھیں لوگوں کے گھر کھلے پڑے ہیں۔ سامان جلا ہوا ہے۔ لیکن بیشتر متاثرین دیکھنے کے لیے بھی آتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔ ان حالات میں کیسے لوگوں کو حوصلہ دیں۔ ہمیں اعتماد تو کم از کم دیا جاتا۔‘

جلائے گئے چرچ کے اطرف تین گلیوں میں کوئی گھر ایسا نہیں تھا، جس میں توڑ پھوڑ لوٹ مار اور آتشزدگی کے آثار نہ ہوں۔ پولیس اہلکار موجود تو تھے لیکن ایک طرف بیٹھے صرف اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے۔ جس طرح نو مئی کے واقعات کے بعد ملزمان کی پکڑ دھکڑ دکھائی دی تھی اس طرح کے مناظر یہاں جڑانوالہ میں دیکھنے میں نہیں آئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان