کیا افغانستان شدت پسند گروپوں کی پناہ گاہ بن گیا؟

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے دو سالوں کے دوران سکیورٹی کا ابھرتا ہوا منظرنامہ پیچیدہ اور تشویش ناک ہے۔

صوبہ ننگرہار میں چھ ستمبر، 2023 کو افغان طالبان کے سکیورٹی اہلکار کھڑے ہیں (اے ایف پی/ شفیع اللہ کاکڑ)

امریکی انخلا اور اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد 15 اگست کو طالبان کے افغانستان پر قبضے کے دو سال مکمل ہو گئے۔

پالیسی سازوں کو افغانستان میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ عسکریت پسند گرپوں کی دوبارہ واپسی پر بھی تشویش ہے۔

افغانستان میں ان دو سالوں کے دوران سکیورٹی کا ابھرتا ہوا منظرنامہ پیچیدہ اور تشویش ناک ہے۔ اگرچہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہے، لیکن دوحہ معاہدے کے تحت انسداد دہشت گردی کی ذمہ داریوں کے لیے طالبان کا عزم اور صلاحیتیں بیک وقت بہتر اور تشویش ناک ہیں۔

طالبان کا افغانستان میں داعش خراسان کے خلاف رویہ جارحانہ جبکہ القاعدہ کی موجودگی سے متعلق انکاری ہے۔

دو سال اقتدار میں رہنے کے بعد طالبان نے طاقت کے زور پر پورے افغانستان میں اپنی رٹ قائم کی ہے۔ البتہ ابھی تک افغان طالبان کو اقتدار پر اپنی اجارہ داری کے حوالے سے کسی قسم کے چیلنج کا سامنا نہیں اور وہ ملک میں امن وامان کی بحالی اور تشدد کی سطح کو نیچے لانے میں کامیاب رہے ہیں۔

اگست 2021 سے افغانستان میں داعش کے حملوں میں لگ بھگ 1,095 افراد جان سے گئے۔ طالبان کا افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی صلاحیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ کوئی بھی گروپ ان کی منظوری یا حمایت کے بغیر افغانستان سے باہر کام نہیں کر سکتا۔

لہٰذا، طالبان کے مختلف عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ پیچیدہ تعلقات یہ سمجھنے کے لیے ایک اہم عنصر ہیں کہ طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں شدت پسند تنظیموں کا چیلنج کس طرح تیار ہو رہا ہے۔

علاقائی ماہرین اور پالیسی ساز اس معاملے پر دو مخالف نظریات رکھتے ہیں۔ ایک مکتبہ فکر کا خیال ہے کہ طالبان کے دو سالہ دور حکومت میں افغانستان عسکریت پسند گروپوں کا مرکز بن گیا ہے۔

اس حوالے سے سب سے زیادہ تشویش ناک اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی جون کی رپورٹ ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان نے دوحہ معاہدے کے تحت اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ افغانستان سمیت پورے خطے میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور طالبان کے دور حکومت میں تقریباً 20 عسکریت پسند گروپوں کو نقل وحرکت اور آپریشن کی زیادہ آزادی ہے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے افغان سرزمین سے پاکستان میں بڑھتے ہوئے حملے افغان طالبان کے دوحہ معاہدے سے متعلق وعدے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندی کی لہر میں 73 فیصد اضافہ ہوا۔ ٹی ٹی پی افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔

تشویش ناک بات یہ ہے کہ صرف ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند ہی نہیں بلکہ کچھ افغان شہری بھی ٹی ٹی پی کی چھتری تلے پاکستان کے خلاف حملوں میں حصہ لیتے پائے گئے۔

اس نے افغان طالبان کو ایک مذہبی حکم نامہ جاری کرنے پر مجبور کیا جس میں اپنے شہریوں کو خبردار کیا گیا کہ وہ افغانستان سے باہر کسی محاذ میں حصہ نہ لیں۔ تاہم طالبان افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی سے انکاری ہیں۔

اسی طرح جولائی 2022 میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے کابل میں مارے جانے کے باوجود طالبان افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں۔

طالبان کے موقف سے مطابقت رکھنے کے لیے القاعدہ نے بھی ایمن الظواہری کی موت کو تسلیم نہیں کیا۔ اگرچہ سیف العدیل القاعدہ کے معاملات کو اس کے نئے ڈی فیکٹو لیڈر کے طور سنبھال رہے ہیں۔

مخالف رائے یہ ہے کچھ چیلنجز اور اختلافات کے باوجود طالبان افغانستان میں دہشت گردی کے خطرے کو روکنے کے لیے تعاون کر رہے ہیں۔

اس کے متعلق امریکی صدر جو بائیڈن نے جولائی میں کہا کہ افغان طالبان اپنا وعدہ پورا کر رہے ہیں۔ جو بائیڈن نے داعش خراسان کے خلاف انٹیلی جنس اور لاجسٹک سپورٹ سے متعلق افغان طالبان کی امریکی مدد کا بھی کہا۔

داعش خراسان کے خلاف بلاشبہ طالبان نے طاقت اور سائبر دونوں شعبوں میں بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔

افغان طالبان  نے اگست 2021 میں کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے خودکش بم دھماکے کے ماسٹر مائنڈ سمیت داعش خراسان کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو مار دیا۔

افغان طالبان کی حکومت کے دوسرے سال ملک میں داعش خراسان کے حملوں میں 83 فیصد کمی آئی۔ اگست 2021 اور اگست 2022 کے درمیان 231 حملوں کے دعوؤں کے برعکس گروپ نے اگلے سال اسی عرصے میں صرف 41 حملے کیے۔

اس کے ساتھ ہی طالبان نے داعش خراسان کے سوشل میڈیا چینلز خاص طور پر ٹیلی گرام اور میسجنگ ایپس پر گروپ کو اپنے کارندوں کو مزید محفوظ ذرائع اور پلیٹ فارمز کی طرف دھکیلنے پر مجبور کیا جس نے ان کے پروپیگنڈا کو بھی متاثر کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

داعش خراسان کا پروپیگنڈا اگرچہ ایک طویل عرصے کے بعد دوبارہ سر اٹھا رہا ہے، لیکن یہ اب پہلے کی طرح اتنا موثر نہیں جتنا کہ افغان طالبان کی حکومت کے پہلے سال کے دوران تھا۔

طالبان نے داعش کے جوابی اقدام کے خلاف دری، پشتو، عربی اور انگریزی زبانوں میں پروپیگنڈا اور داعش خراسان کو بدنام کرنے کے لیے المرساد کے نام سے ایک سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔

داعش المرساد کو نظریاتی طور پر بدنام کرنے کے لیے باقاعدگی سے کتابیں، مضامین اور بیانات شائع کرتا ہے۔

تشویش ناک بات یہ ہے کہ طالبان کی بے رحمانہ کارروائیوں کے تقریباً 15 دہشت گردی کے منصوبے، جس میں مغربی سفارت خانوں، قونصل خانوں اور یورپ کے مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے اپریل 2023 داعش خراسان کے نو منصوبہ جو ابتدائی مراحل میں تھے، ناکام بنائے تھے۔ 

داعش خراسان کی ظاہری کمزوری اور کم ہوتی پروپیگنڈا صلاحیتوں کے باوجود برقرار ہے جو کہ علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔

نوے کی دہائی کے وسط کے برعکس افغانستان طالبان کے تحت جہادیوں کا مرکز نہیں بن سکا۔ تاہم، خطرے کی موجودگی برقرار ہے۔

طالبان نے داعش خراسان کے خلاف امریکہ کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے بین الاقوامی برادری کو طالبان کے ساتھ مشترکہ خطرات کے خلاف کام کرنے کے تجارتی معاہدوں کا جانب بڑھنا ہوگا جیسے داعش خراسان اور ڈی فیکٹو ’امارت اسلامی‘ کو قانونی حیثیت دینے یا تعاون سے گریز کرنے اور کے خطرے کو بڑھنے کی اجازت دینا۔

یہ کیچ 22 کی صورت حال ہے، جو بین الاقوامی برادری کے اخلاقی کمپاس کا امتحان لے گی۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ