ریاست مخالف سرگرمیوں کا الزام: بریگیڈیئر کی عدالت میں پیشی کا حکم

جسٹس جواد حسن نے بریگیڈیئر اختر سبحان کو پیش نہ کرنے کی صورت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ان کے خلاف ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ سے متعلق چارج شیٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

برگیڈیئر اختر سبحان کی حراست کے خلاف ان کی اہلیہ عمیرہ سلیم نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں درخواست دائر کی تھی۔ اس تصویر میں لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کی عمارت کو دیکھا جا سکتا ہے(تصویر: ریڈیو پاکستان)

لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے جمعرات کو پاکستان فوج کے اہلکار بریگیڈیئر اختر سبحان کو حراست میں لیے جانے کی درخواست پر سماعت کے دوران انہیں 26 ستمبر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس جواد حسن نے بریگیڈیئر اختر سبحان کو پیش نہ کرنے کی صورت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ان کے خلاف ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ سے متعلق چارج شیٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

برگیڈیئر اختر سبحان کی حراست کے خلاف ان کی اہلیہ عمیرہ سلیم نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں درخواست دائر کی تھی۔

ان کی دائر کردہ درخواست کے مطابق بریگیڈیئر اختر سبحان ڈائریکٹر ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کوئٹہ تعینات تھے۔ 

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’بریگیڈیئر اختر سبحان کو رواں سال 22 جون کو سپیشل انویسٹی گیشن برانچ کے اہلکاروں نے ان کے دفتر سے غیر قانونی طور پر اغوا کیا اور وہ اس وقت سے ملٹری پولیس یونٹ راولپنڈی میں قید ہیں۔‘

 درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ’میرے شوہر کو جھوٹے الزامات پر ملٹری پولیس نے حراست میں لیا۔‘

جج نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’آپ کا کوئی موقف نہیں ہے، آپ اپنے موقف سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ آپ صبح کچھ کہتے ہیں تو گھنٹے بعد کچھ اور کہتے ہیں۔ بطور جج کسی شخص کی حفاظت کرنا میرا قانونی فرض ہے۔

’اختر سبحان کو پیش کریں تو کیس نمٹا دیا جائے گا کہ میں نے دیکھ لیا وہ زندہ ہیں۔‘

آرمی ایکٹ کے سیکشن 74 کے مطابق کسی فرد کو چارج شیٹ کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔

اسی ایکٹ کے سیکشن 51 کے مطابق اگر کسی فرد کو گرفتاری کے بعد 24 روز تک چارج شیٹ نہیں کیا جاتا تو اس عمل کی سزا دو سال سخت قید ہے۔

عدالت کے جج نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’یہ تو آپ نے مان لیا کہ بندہ آپ کے پاس ہے لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔‘ 

ایڈیشنل اٹارنی جنرل صدیق اعوان نے جواب دیا کہ ’اختر سبحان کے وکیل انعام الرحیم کوئٹہ میں ان سے ملاقات کر سکتے ہیں۔‘

 جس پر وکیل انعام الرحیم نے کہا وہ کوئٹہ بھی چلے جائیں گے ’لیکن میرے موکل پر لگائے گئے الزامات پہلے تحریری طور پر بیان حلفی کے ساتھ جمع کروائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے بیان حلفی کے ساتھ بتایا ہوا ہے کہ بریگیڈیئر اختر سبحان راولپنڈی میں موجود ہیں اور ان کی اہلیہ سے بات بھی کروا دی گئی ہے۔ جب بات کروائی گئی ہے تو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ شہر میں موجود نہیں؟‘

جسٹس جواد حسن نے کہا ’میں آپ کی کوئی بات زبانی نہیں مانتا۔ انہیں اگلی سماعت میں پیش کریں یا تحریری جواب جمع کروائیں۔‘

جج نے اس حوالے سے جنرل ہیڈ کوارٹرز کے جج ایڈووکیٹ جنرل ڈیپارٹمنٹ کی نمائندگی کرنے والے لیفٹیننٹ کرنل حیدر سے استفسار کیا تو انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’وہ فوج کی تحویل میں ہیں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ’انہیں کہاں رکھا گیا ہے‘؟ تو انہوں نے جواب دیا ’میں صرف اتنا بتا سکتا ہوں۔‘

بعد ازاں کیس کی سماعت 26 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ 

ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام

گذشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک صدیق اعوان نے بتایا تھا کہ ’بریگیڈئیر اختر سبحان ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے۔‘

جس پر سبحان اختر کے وکیل انعام الرحیم نے جواب دیا کہ ’اگر وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھے تو یہی بات تحریری طور پر دیں۔‘

جسٹس جواد حسن نے وزارت دفاع سے جواب طلب کیا تھا اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل صدیق اعوان کو تفصیلی اور تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان