قدیم انسان کا بنایا گیا پانچ لاکھ سال پرانا ’پلیٹ فارم‘ دریافت

اس دریافت سے ابتدائی انسانی ٹیکنالوجی کے ارتقا کے بارے میں ماہرین آثار قدیمہ کی تفہیم تبدیل ہونے کا امکان ہے۔

لکڑی کے اس ٹکڑے کو قدیم انسان نے اس شکل میں تراشا (Deep Roots of Humanity research project and University of Liverpool)

برطانوی اور افریقی ماہرین آثار قدیمہ نے دنیا میں انسان کے بنائے ہوئے قدیم ترین سٹرکچر کے شواہد دریافت کیے ہیں۔ اسے انسان کی معدوم ہونے والی نسل نے پانچ لاکھ سال قبل تعمیر کیا تھا اور یہ افریقہ سے ملا ہے۔

اسے تیار کردہ لکڑی کی مدد سے بنایا گیا ہے، امکان یہ ہے کہ اسے دلدل والی زمین پر ایک اونچی گزرگاہ کے طور پر بنایا کیا گیا تھا – یا پانی والے علاقے کے وسط میں ایک اونچے پلیٹ فارم کے طور پر، شاید شکار کے ٹھکانے یا قصائی کے اڈے کے طور پر۔

یہ سٹرکچر شمالی زیمبیا میں پانی سے بھری ہوئی زمین سے ملا، اور کسی بھی دوسرے انسانی ساختہ سٹرکچر سے کم از کم دو گنا پرانا ہے۔

امکان ہے کہ اس دریافت سے ماہرین آثار قدیمہ کی ابتدائی انسانی ٹیکنالوجی اور علمی صلاحیتوں کے ارتقا کے بارے میں سوچ بدل جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لکڑی کی بلند گزرگاہ یا پلیٹ فارم دریائے کالامبو کے جنوبی کنارے پر انسانی موجودگی کی معلوم تاریخ کے دور سے بھی پہلے انسانی موجودگی کا محض ایک چھوٹا سا حصہ تھا۔

 یہ دنیا کے دو سب سے شاندار قدرتی عجائبات یعنی 235 میٹر اونچی ایک آبشار اور 300 میٹر گہرے درے سے صرف چند سو میٹر اوپر کی دوری پر ملا۔

امکان ہے کہ ابتدائی شکاری انسان بالواسطہ طور پر آبشار اور غیرمعمولی طور پر متنوع مقامی زمینی ساخت کی وجہ سے اس علاقے کی طرف راغب ہوئے ہوں گے، اور ان میں دنیا کے پہلے تعمیراتی ’انجینیئرز‘ اور ترکھان بھی شامل تھے۔

آبشار سے اوپر کی طرف ایک بڑا اور زرخیز سیلابی علاقہ ہے جس میں دلدلی زمین، چھوٹی جھیلیں، چھوٹی آبی گزرگاہیں اور دریائی جنگلات کے ساتھ ساتھ مرکزی دریا بھی رہا ہو گا۔ جنگلی علاقے میں درختوں کی دوسری انواع سمیت سیلابی میدان سے متصل پہاڑی ڈھلوانیں ہوں گی۔

لیکن نیچے کی طرف، دریا تین میل لمبے ایک متاثر کن درے سے گزرتا ہے، جس کا اپنا برساتی جنگل ہے، جو جزوی طور پر آبشار کے بخارات سے اگا ہے۔ اور صرف تین میل آگے، یہ دریا افریقہ بڑی جھیلوں میں سے ایک جھیل تانگانیکا میں جا گرتا ہے، جو خاص طور پر مچھلیوں سے بھری ہوئی ہے اور جانوروں کے بڑے ریوڑوں کو اپنی طرف کھینچتی ہو گی۔

ان میں سے ہر ماحول نے مختلف قسم کے جانوروں کو اپنی طرف کھینچا ہو گا اور یہاں مختلف پودوں، پھلوں اور میوہ جات کی بہتات رہی ہو گی۔ ان سب کی وجہ سے، ابتدائی انسان ان کی جانب متوجہ ہوئے ہوں گے۔

آثار قدیمہ کے ماہرین کو اب تک لکڑی سے بنے سٹرکچر کے دو حصے ملے ہیں: ایک درخت کے تنے کا 1.4 میٹر لمبا حصہ اور ایک درخت کا ٹھونٹھ، دونوں کو معلوم تاریخ سے بھی پہلے کے بڑھئیوں نے تبدیل کیا تھا۔

گرائے جانے کے بعد درخت کے تنے کو ایسی شکل دی گئی تھی کہ یہ دونوں سرے پتلے ہو گئے تھے۔

بعد ازاں اس کے سرے پر 13 سینٹی میٹر کا یو کی شکل کا نشان بنایا گیا تھا۔ بعدازاں اسے درخت کے تراشے ہوئے ٹھونٹھ پراوپر افقی انداز میں رکھا گیا تھا۔ اس کو ایسے تراشا گیا تھا کہ اوپری 20 سینٹی میٹر افقی انداز میں تراشے ہوئے درخت کے تنے کی یو شکل والے نشان میں آسانی سے بیٹھ سکے۔

درخت کے تنے کو اس طرح رکھ کر، ٹھنٹھ کے اوپر اس بات کو یقینی بناتے ہوئے موثر انداز میں ’لاک‘ کیا گیا تھا کہ ٹریک وے یا پلیٹ فارم دلدل سے تقریباً 20 سینٹی میٹر اوپر رہے۔

اس کے علاوہ تقریبا پانچ لاکھ سال پہلے کی لکڑی کا ایک بڑا ٹکڑا بھی تھا جو صرف چند میٹر کی دوری پر ملا۔ یہ شاید اس لکڑی کو چیرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

آثار قدیمہ کے ماہرین نے کاٹنے، چھوٹے ٹکڑے کرنے اور کھرچنے والے مختلف اوزار بھی دریافت کیے ہیں، جو سبھی پتھر سے بنے ہیں، اور ان میں کھانا پکانے کے لیے ایک ممکنہ چولہا بھی شامل ہے۔

وہاں رہنے والے معلوم تاریخ سے بھی پہلے کے انسان ہومو ہائیڈل برگینسس (Homo heidelbergensis) نامی نسل سے تعلق رکھتے تھے جو اب معدوم ہو چکی ہے۔ یہ ایسی نسل تھی جو اس وقت تک افریقہ، مغربی ایشیا اور یورپ کے زیادہ تر حصے کو آباد کر چکی تھی اور جو چھ لاکھ اور تین لاکھ سال پہلے پروان چڑھی تھی۔

تاہم، تقریباً تین ہزار سال کے لگ بھگ ہائیڈل برگینسس معدوم ہو گئے تھے، ممکنہ طور پر نئی، اس سے بھی زیادہ ترقی یافتہ انسانی نسلوں، یعنی نینڈرتھال اور ہم (ہومو سیپیئنز) کے ساتھ مقابلہ کی وجہ سے۔

آثار قدیمہ کی یہ تحقیقات برطانیہ، بیلجیئم اور زیمبیا میں مقیم ماہرین آثار قدیمہ اور دیگر سائنس دانوں نے گذشتہ چار برسوں دوران لیورپول، ایبریسٹویتھ، رائل ہولووے اور لیج کی یونیورسٹیوں اور زیمبیا کے نیشنل میوزیم بورڈ اور ملک کے نیشنل ہیریٹیج کنزرویشن کمیشن سے گذشتہ چاربرسوں میں کی گئی ہیں۔

سائنسی جریدے نیچر نے بدھ کو اس منصوبے پر ایک تعلیمی رپورٹ شائع کی ہے۔

یونیورسٹی آف لیورپول کے شعبہ آثار قدیمہ، کلاسیکس اور مصریات سے تعلق رکھنے والے پروجیکٹ ڈائریکٹر پروفیسر لیری برہم بین الاقوامی ’ڈیپ روٹس آف ہیومینٹی‘ تحقیقی منصوبے کے سربراہ ہیں، جس میں کلمبو آبشار کے علاقے کی تحقیقات بھی شامل ہیں۔

 ان کا کہنا ہے، ’یہ دریافت انسانوں کی طویل عرصے سے معدوم ہونے والی نسل کے بارے میں ہمارے سوچنے کا انداز بدلنے میں مدد کر رہی ہے۔‘

ان دریافتوں کی تاریخ کا تعین ایبریسٹویتھ یونیورسٹی کے ماہرین نے کیا تھا۔ انہوں نے لومینسینس ڈیٹنگ تکنیک کا استعمال کیا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ دریافتوں کے آس پاس کی ریت میں موجود معدنیات پر آخری بار کب سورج کی روشنی پڑی تھی، تاکہ ان کی عمر کا تعین کیا جا سکے۔

ایبریسٹویتھ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر جیف ڈلر کا کہنا تھا، ’اتنے طویل عرصے کے بعد، دریافتوں کے لیے تاریخ کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔ لومینسینس ڈیٹنگ کی مدد سے ہم وقت میں بہت پیچھے جا سکتے ہیں، ایسے مقامات کو جوڑنے سے ہم انسانی ارتقا کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس