کوئٹہ کے آرٹسٹ جو تنگ دستی کے باعث ویلڈر بن گئے

منیر احمد کوئٹہ شہر کے چند ہی آرٹسٹس میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے تب اس سحر انگیز کام کو گلے لگایا تھا جب گاؤں تو دور شہری بھی اس کام سے نابلد تھے۔

کوئٹہ کے رہائشی منیر احمد نے زمانہ شاگردی نوے کی دہائی میں مکمل کرنے کے بعد خود اپنے فن پارے بنانے شروع کر دیے تھے اور اپنے فنِ مصوری کے 30 سالہ سفر میں کافی سارے صوبائی اور قومی سطح کے ایوارڈز حاصل کیے ہیں۔

منیر احمد ایک آرٹسٹ ہیں جو اب مجبوری کے باعث ویلڈنگ کا کام کر رہے ہیں۔

جس میں سکیچنگ سے لے کر واٹر کلر اور مجسمہ سازی بھی شامل تھی۔ منیر احمد کے کیریئر کا سنہرہ وقت تب تھا جب سال 2000 کے بعد ان سے مختلف قسم کے آرٹس بنانے کے آرڈرز دینے کے لیے لوگ جوق درجوق آنا شروع ہوئے۔

جس سے منیر احمد کی نہ صرف معاشی حالات بہتر ہونے لگے بلکہ انہیں معاشرے میں ایک قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا جانے لگا۔

منیر احمد نے بتایا کہ یہ سلسلہ 2015 کے بعد سست روی کا شکار ہو گیا

اور آج کل انہیں دو وقت کی روٹی کے لیے زمین آسمان ایک کرنا پڑا۔

منیر احمد پچھلے چند سالوں سے قریبی دکان میں ویلڈنگ کا کام کرتے ہیں جس سے اب ان کے بچوں کا گزر بسر ہو جاتا ہے۔

مگر مسلسل ویلڈنگ کا کام کرنے سے ان کی آنکھیں کمزور ہونا شروع ہو چکی ہیں جس سے وہ اپنے آرٹ کا کام بھی صحیح طرح کرنے سے قاصر ہیں۔

ان کی انکھیں دن بدن کمزور ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

منیر کہتے ہیں: ’میں جب ویلڈنگ کا کام کر کے آتا ہوں تو ایک سے دو گنٹھوں تک میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا رہتا ہے اور ہر چیز دھندلا جاتی ہے۔

’تصویر وغیرہ بناتے وقت باریک بینی سے کام کیا جاتا ہے مگر اب جب میں کوئی تصویر بنانے کی کوشش کرتا ہوں تو میرے آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔‘ منیر کہتے ہیں کہ ’اب کوئی ایوارڈ جب گھر لے کر جاتا ہوں تو گھر والے مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنے ایوارڈز کا کیا کرو گے؟ اپنے ویلڈنگ کے کام پر توجہ دو۔ گھر کا خرچہ پورا نہیں ہو پا رہا۔

’یہ جگہ تو اب کباڑ خانہ بن چکا ہے اور نہ ہی یہاں پر کوئی کام کر سکتا ہے۔ اب میں سارا دن ویلڈنگ ہی کرتا ہوں۔ یہاں پر کوئی نہیں آتا کیونکہ آرٹ بنانے کے لیے پیسے درکار ہوتے ہیں۔

’میں دن کے آٹھ سو روپے کماتا ہوں۔ اب اگر میں اپنی کمائی ہوئی تصویروں کے ایک فریم پر لگاؤں تو اس دن میرے بچوں کو بھوکا سونا پڑے گا تو اسی وجہ سے نہ میں یہاں پر کچھ خرچ کرسکتا ہوں اور نہ ہی خرچ کرنے کے لیے کچھ ہے۔‘

منیر احمد نے سسکی بھرے لہجے میں بتایا کہ اب ان کی ساری جدوجہد صرف یہ رہ گئی ہے کہ وہ کسی طرح سے دو وقت کی روٹی کما پائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ