فلموں سے بُرے والے ولن کہاں چلے گئے؟

نیچرل اداکاری کرنا، عام آدمی جیسا ولن بننا، سوپر پاورز کے بغیر ہیرو بننا، پوری فلم میں کوئی غیر معمولی بات نہ ہونا، کچھ بھی ایسا نہ ہونا جو صرف فلموں ہی میں ہو سکتا ہو، یہ سب کچھ نہیں ہو گا تو ہم فلم کو فلم کیوں کہیں گے؟ ڈرامے کو پھر ڈرامہ کیوں کہیں گے؟

ایک زمانے میں ولن ایسے ہوتے تھے جنہیں دیکھتے ہی نفرت دور سے دوڑ کے آنے لگ جاتی تھی۔

ان کی ہنسی، ان کا گیٹ اپ، ان کا بولنا چالنا سب کچھ ایسا ہوتا تھا کہ فلم دیکھتا بندہ انہیں گالی دیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ ماضی میں کئی ولنز کے ساتھ ایسا بھی ہوا کہ وہ کبھی جب عام آدمی کے سامنے آئے تو باقاعدہ کٹ کھانی پڑی انہیں۔

ایسا ایک ولن پچھلے دنوں میں نے دیکھا تو روح خوش ہو گئی۔ آنکھوں سمیت پورے جسم کے اندر جیسے ٹھنڈک اتر گئی۔ اس کا نام آتما رام تھا اور وہ ابھی گنز اینڈ گلابز نامی ایک سیزن میں دیکھنے کو ملا۔

اس وقت ایک دم لگا کہ یار زندگی میں، عام فلموں ڈراموں میں، ولن ہونا کتنا زیادہ ضروری ہے؟

ولن بڑے پاور فل ہوتے تھے پرانے زمانے میں، آپ یاد کریں، کبھی یہ خواہش نہیں ہوئی ہو گی کہ آپ امریش پوری جیسے بن جائیں، انوپم کھیر ٹائپ کوئی کام کریں یا عام زندگی میں آپ کا رول پریم چوپڑا جیسا ہو۔

کئی نام تھے، بے شمار، سب اپنی جگہ بھرپور قسم کے منفی رول کرتے تھے لیکن اس سارے لگے بندھے کام کو 30، 35 سال پہلے خود فلم والوں نے خراب کرنا شروع کر دیا۔

کھل نائیک بنی تو سنجے دت جیسا ولن ہر کسی کو اچھا لگنے لگا، رام جانے یا انجام ٹائپ فلموں میں شاہ رخ خان زہریلے قسم کے رول میں آئے، رتیش دیش مکھ، نواز الدین صدیقی، نانا پاٹیکر سبھی نے وقت پڑنے پر ولن پنا کیا اور اس طرح ہوا یہ کہ وہ جو گڈ بوائے بیڈ بوائے والی تقسیم تھی، وہ دھندلی ہو گئی۔

پہلے زمانے میں ولن لاؤڈ ہوتے تھے، کڑاکے دار آواز، طنزیہ، رعب دار لہجہ ۔۔۔ یہ سب مصنوعی لگتا تھا اور اسی لیے ایک فلم، باقاعدہ فلم ہی محسوس ہوتی تھی۔ پاریش راول اور انوپم کھیر سمیت بہت سے دوسرے اداکار بعد میں کامیڈی قسم کے ولن بننے لگے اور کردار کا منفی پن آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہو گیا۔

یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ایک فلم کو فلم ہی لگنا چاہیے۔

کیا ضروری ہے کہ فلم بھی ایسی لگے کہ جیسے عام زندگی ہوتی ہے؟

نیچرل اداکاری کرنا، عام آدمی جیسا ولن بننا، سوپر پاورز کے بغیر ہیرو بننا، پوری فلم میں کوئی غیر معمولی بات نہ ہونا، کچھ بھی ایسا نہ ہونا جو صرف فلموں ہی میں ہو سکتا ہو، یہ سب کچھ نہیں ہو گا تو ہم فلم کو فلم کیوں کہیں گے؟ ڈرامے کو پھر ڈرامہ کیوں کہیں گے؟

انگریزی فلم والوں نے بھی یہی لائن پکڑی ہوئی ہے، زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ ولن فلم ختم ہوتے ہوتے ہیرو میں بدل جائے گا، مطلب کیوں بھائی؟ پورا ولن، سالم مکمل ولن کیوں نہیں پیدا کر سکتے تم لوگ؟

تو آتما رام کو دیکھ کر مجھے لگا کہ یار بڑے عرصے بعد کوئی تگڑا ولن سامنے آیا ہے۔ ایسا ولن جسے دیکھ کے باقاعدہ نفرت ہوتی ہو اور بندے کا دل کرے کہ یار اس کا سر پھاڑ دیں۔

ولن کو جب سے ہم نے کیریکٹر ایکٹر میں بدلا ہے، غور کریں تب سے بہت کم فلمیں لوگوں میں ٹھیک والی مشہوری سمیٹ پائی ہیں۔ جن فلموں نے اچھا بزنس کیا ان میں کہیں بھی دیکھ لیں تو خیر اور شر کی ایک واضح جنگ نظر آئے گی، ایک اونچی دیوار دکھے گی کہ جس کی ایک طرف ہیرو ہو گا اور دوسری طرف ولن۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وجہ کیا ہے؟ لوگ دھندلے پن پر یقین نہیں رکھتے، انہیں گرے ایریاز نہیں چاہیئیں، وہ ان کی زندگیوں میں بھرے پڑے ہیں۔ فلم میں انہیں کم ازکم سب کچھ بالکل کرسٹل کلیئر چاہیے، اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں۔

ہوتا یہ ہے کہ فلم میں ولن کو جب ہیرو مارتا ہے تو دیکھنے والے خوش ہوتے ہیں، جب کوئی آسمانی طاقت ہیرو کو بچا لیتی ہے تو سنیما میں بیٹھے لوگ دل میں شکر ادا کرتے ہیں، کیریکٹر ایکٹر جب کوئی ٹِکاواں ڈائیلاگ بولتا ہے جو آپ کو پتہ ہے کہ عام زندگی میں ایسے نہیں بولا جا سکتا، تو آپ خوش ہو جاتے ہیں اور اسی چیز کا نام فلم ہے۔

فلم میں، کہانیوں میں، تصویروں میں، گانوں میں ۔۔۔ جب نئی دنیا حقیقت نگاری کی بات کرتی ہے، ان سب کو بھی عام زندگی جیسا دکھاتی ہے تو ہوتا صرف یہ ہے کہ عام بندہ ان چیزوں میں دلچسپی نہیں محسوس کرتا۔ وہ کہتا یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں تو میری زندگی میں پہلے ہی چل رہی ہیں میں یہ سب کیوں دیکھوں؟

فلمی انسانیت کو اس وقت ایک سوپر مین کی ضرورت ہے، کیپٹن پلانیٹ کی ضرورت ہے، ونڈر وومن چاہیے، دلیپ کمار ٹائپ مکمل ہیرو چاہیے اور ان کے ساتھ ساتھ سو فیصد ایسے ولن درکار ہیں جنہیں دیکھ کے بندہ برا محسوس کرے اور یہ سب لوگ جب اس ولن نامی برائی کا خاتمہ کریں تو دل کو تسکین محسوس ہو۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ