انڈیا میں پھنسے افغان کیڈٹس دہری مشکل کا شکار

عرب نیوز کے مطابق 27 سالہ ہڈمین نے سابق حکومت کے خاتمے کے چار ماہ بعد لیفٹیننٹ کے طور پر گریجویشن کی اور اب ان پاس خدمات انجام دینے کے لیے کوئی فوج نہیں ہے۔

ایک افغان خاتون کیڈٹ آفیسرز ٹریننگ اکیڈمی میں 11 دسمبر 2017 کو تربیتی سیشن کے دوران ہدف کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں (اے ایف پی)

افغان کیڈٹ اجمل ہڈمین نے دہرہ دون میں انڈین ملٹری اکیڈمی میں تربیت کے دوران کورس مکمل کیا تاکہ افسر کی حیثیت سے وطن واپس لوٹ سکیں لیکن اگست 2021 میں سب کچھ اچانک بدل گیا جب طالبان کے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد اجمل کو انڈیا بھیجنے والی حکومت ختم ہو گئی۔

عرب نیوز کے مطابق 27 سالہ ہڈمین نے سابق حکومت کے خاتمے کے چار ماہ بعد لیفٹیننٹ کے طور پر گریجویشن کی اور اب ان پاس خدمات انجام دینے کے لیے کوئی فوج نہیں ہے۔

وہ اکیلے نہیں ہیں۔ نہ صرف دہرہ دون اکیڈمی بلکہ پونے کی نیشنل ڈیفنس اکیڈمی اور چنئی میں آفیسرز ٹریننگ اکیڈمی کے چند درجن مزید افغان کیڈٹس بھی افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کو افغانستان کے نئے حکمرانوں کے دور میں زندگی کا خطرہ ہے کیوں کہ ان میں سے بہت سے پہلے ہی طالبان کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔

ہڈمین نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے خاندان بزرگ افراد سے متاثر ہوئے اور ہم میں سے زیادہ تر کے لیے فوج کی وردی پہننا ایک خواب، فخر اور اعزاز تھا۔

’مجموعی طور پر ہم افغان نیشنل آرمی کے 82 افسر ہیں۔‘

افغانستان کی وہ فوج جس نے گذشتہ مغربی حمایت یافتہ انتظامیہ کی حمایت کی، اب اس کا وجود باقی نہیں رہا۔

انڈین فوجی سکولوں نے 1948 میں افغانوں کو تربیت دینا شروع کی تھی۔ اکیڈمیوں میں دوست ممالک کے کیڈٹس کے لیے مختص نشستوں کی ایک مقررہ تعداد ہے اور فیس متعلقہ ممالک کی طرف سے ادا کی جاتی ہے۔

این ڈی اے جو سکول کے بعد کیڈٹس کو براہ راست داخلہ دیتی ہے، دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری فراہم کرتی ہے۔

اس ڈگری کو مکمل کرنے کے بعد کیڈٹ ایک سال کی خصوصی فوجی تربیت کے لیے انڈین ملٹری اکیڈمی کا رخ کرتے ہیں جہاں انہیں فوجی افسر کے طور پر کمیشن ملتا ہے۔

نیشنل ڈیفنس اکیڈمی (این ڈی اے) سے میرٹ کارڈ کے ساتھ باکسنگ اور کنگ فو میں میڈل جیتنے والے پرویز آمنہ بخشی نے نومبر 2022 میں گریجویشن کی لیکن ان کی تربیت ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ وہ تقریباً ایک سال سے اس پروگرام کو جاری رکھنے اور سٹوڈنٹ ویزے کے جائزے کے لیے کلیئرنس کا انتظار کر رہے ہیں۔

بخشی کا تعلق پنج شیر سے ہے جو ایک ایسا علاقہ ہے جس کی مزاحمت کی تاریخ رہی ہے۔ 1980 کی دہائی میں اس علاقے سے تعلق رکھنے والے مشہور کمانڈر احمد شاہ مسعود نے سوویت افواج کے خلاف علاقے کا دفاع کیا اور 1990 کی دہائی میں پہلی طالبان حکومت کے خلاف حملے کی قیادت کی۔ 2021 میں پنج شیر طالبان کے قبضے میں آنے والا آخری علاقہ تھا۔

بخشی کے بقول: ’ہم اپنا ملک واپس لینے کی خاطر خون دینے کے لیے تیار ہیں لیکن حمایت اور قیادت کی کمی کی وجہ سے طالبان کے خلاف مزاحمت ممکن نہیں۔‘

بخشی کا نام ان کی کامیابیوں کی بدولت این ڈی اے جمنیزیم میں مستقل طور پر درج ہے۔ تاہم ان کی کامیابیوں کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ انہیں اور ان کے ساتھی کیڈٹس کو مستقبل کا علم نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس مالی اخراجات پورے کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ انڈیا نے ہمیں اندھیرے میں چھوڑ دیا ہے۔‘

اس سے قبل نئی دہلی میں افغان سفارت خانے نے انہیں کچھ مدد کی پیش کش کی لیکن اب سفارت خانہ بھی نہیں رہا۔ افغان مشن نے انڈین حکام کی جانب سے تعاون نہ ملنے کا حوالہ دیتے ہوئے یکم اکتوبر کو اپنا آپریشن بند کر دیا۔

انڈیا طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اور ان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان میں اپنی سفارتی موجودگی معطل کر چکا ہے۔

جون 2022 میں نئی دہلی نے افغان دارالحکومت میں ایک ’تکنیکی ٹیم‘ تعینات کی تاکہ وہاں انڈیا کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراہم کی جانے والی امداد کی نگرانی اور کوآرڈینیشن کی جا سکے۔

اس کے بعد سے افغان سفارت خانہ جس کا عملہ گذشتہ حکومت نے مقرر کیا، اپنی سفارتی اہمیت کھو چکا ہے۔ مشن نے ایک بیان میں بندش کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ انڈین حکومت کی طرف سے ’سفارتی عدم تسلیم اور منظم حمایت کی عدم موجودگی‘ میں ’معمول کے مطابق کام نہیں کرسکتا۔‘

بخشی کو انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کی جانب سے سکالرشپ کی امید تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیا میں انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی شہریوں کے لیے آئی سی سی آر کے سالانہ پروگرام میں افغانوں کو شامل کرنا کابل میں حکومت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی نئی دہلی کی کوششوں کا حصہ تھا۔

سکالرشپ کے تحت افغان طلبہ کو تین سو ڈالر کا وظیفہ اور رہائش دی گئی۔ بخشی یہ سکالر شپ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

بخشی کے مطابق: ’یہ سکالرشپ کم از کم ہماری ڈگری جاری رکھنے یا کوئی اور ہنر سیکھنے میں مدد کر سکتی ہے تاکہ ہم ملازمت کر سکیں۔ کیوں کہ ہماری مالی حالت بہت خراب ہے۔ ہم صرف وہی خرچ کر رہے ہیں جو ہمارے پاس اپنی بچت ہے اور وہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گی۔‘

انڈین وزارت خارجہ نے افغان کیڈٹس کی حیثیت پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

82 کیڈٹس میں سے دو آئی سی سی آر سکیم کے تحت انڈیا میں قیام کر سکتے ہیں اور دیگر نو اب بھی اپنی متعلقہ اکیڈمیوں میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ باقی بے کار اور قانونی الجھن کا شکار ہیں۔

دہرہ دون اکیڈمی کے گریجویٹ 28 سالہ لیفٹیننٹ عصمت اللہ اصیل نے کہا کہ ’ہم میں سے ہر ایک اپنے ملک کے لیے اپنی جان دینے کے لیے تیار ہے لیکن اس وقت ہمارا مسئلہ اپنے اور افغانستان میں موجود اہل خانہ کے اخراجات پورے کرنے کا ہے۔

’ہم نے کئی بار مختلف دروازوں پر دستک دی لیکن انہوں نے صرف معذرت کی۔ ہماری توقع صرف ویزہ یا سکالرشپ کی ہے جو کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا