’ہیلو! ہاور آر یو، ویلکم تو سکردو، پیپلز آف بلتستان آر ہیپی ٹو سی یو، وچ کنٹری یو آر فرام؟‘
بیرون ملک سے سکردو آنے والے ہر سیاح کے لیے اس طرح کے خیر مقدمی کلمات کہنے والا یہ شخص نہ تو کوئی سرکاری عہدے دار ہے۔ جس کی یہ ذمہ داری ہے اور نہ ہی کسی ٹوارزم کمپنی کی کمرشل مارکیٹنگ کا نمائندہ بلکہ یہ تو ایک عام شہری ہے جسے سب مہدی پینٹر کے نام سے جانتے ہیں۔
سر پر مقامی اون کے پٹو کی بنی ہوئی ٹوپی، قمیص شلوار اور اوپر سستا ڈریس کوٹ، پاؤں میں سلیپر اور جب دیکھو سردی گرمی میں کالج روڈ، یادگار چوک سے کشو باغ تک ایک بے چین روح کی مانند پیدل چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔
عمر تقریباً 65 سال ہو گئی ہے، درمیانہ قد، سر اور داڑھی کے بال خشخشی سفید، سامنے کے دانت گر گئے ہیں، ہونٹوں پر دھیما تبسم لیکن چال میں کوئی لکنت نہیں ہے۔ چلتے پھرتے وقت کسی بھی جاننے والے سے ملاقات ہوں تو سرسری نہیں گزرتے۔
سلام دعا کے بعد رک کر کوئی نہ کوئی موضوع ضرور چھیڑ دیتے ہیں، جو زیادہ تر ادبی لطافت لیے ہوتا ہے۔ اس گفتگو کے دوران گاہے بگاہے موضوع کی مناسبت سے بلتی یا اردو اشعار بھی ضرور گوش گزار کرتے ہیں۔ انہیں کئی اشعار زبانی یاد ہیں۔
مہدی پینٹر نام اس لیے پڑ گیا ہے کہ وہ دراصل پینٹر ہیں، رنگوں سے کھیلنا ان کا شوق اور روزگار ہے۔ پینا فلیکس کی آمد سے پہلے ان کا بڑا نام تھا۔
سیاسی ہوں یا مذہبی، سماجی ہوں یا ادبی تقریبات ہر قسم کے بینر جو سفید کپڑے میں دیدہ زیب لکھائی میں بنائے جاتے تھے، سب کے سب مہدی پینٹر کی کاوشوں کا نتیجہ ہوتے تھے۔
صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ سکردو کی اکثر دکانوں کی پیشانی پر لگے بورڈ مہدی ہی کے فنکارانہ صلاحیتوں کا ثبوت ہیں۔
ان کا کوئی بڑا سٹوڈیو تو ہے نہیں بلکہ قتل گاہ مارکیٹ جو لنڈے کے کوٹ، بنیان، جوتے اور سکینڈ ہینڈ سامان کا مرکز ہے، اسی کے آخری کونے میں ان کی ایک چھوٹی سی دکان ہے۔
اسی نیم روشن دکان میں مہدی ہر طرف بکھرے استعمال شدہ رنگ کے ڈبوں اور لوہے کے فریم شدہ بورڈز کے بیچوں بیچ اپنی ایک الگ دنیا میں رہتے ہیں۔ گو کہ شہر میں پینا فلیکس اور جدید پرنٹنگ مشینوں کے لگنے سے ان کا کام بہت محدود ہوگیا ہے مگر وہ پھر بھی شاکی نہیں صبر و شکر سے سر نیہواڑے جو بھی کام ملے، اس پر مطمئن ہیں۔
برش اور موئے قلم سے حروف تراشنا اور پھر رنگوں سے ان میں جان ڈالنا ان کا فن ضرور ہے مگر ان کے اندر ایک اور شخص بھی رہتا ہے جو انہیں ادب و شاعری کی طرف اکساتا رہتا ہے۔ اسی لیے تو انہوں نے اپنی دکان کا نام بھی شاعرانہ ’لق شئسی ربئی کھن‘ رکھا ہے۔
مہدی کا تعلق مردم خیز قصبہ پرکوتہ سے ہے جو اب مہدی آباد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا خاندان وہاں کے ٹھاکرپا محلہ میں بستا ہے۔
مہدی کی سکردو منتقلی اور پھر کویت اور کراچی جا کر محنت مزدوری کی کہانی بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔
بہت ہی کم عمری میں غم روزگار نے انہیں اپنے دام الفت میں باندھ لیا اور مہدی آباد ٹرسٹ کے توسط سے کویت پہنچے اور ایک دفتر میں جھاڑ جھنکار کی درستگی کا کام ملا۔
اس دفتر کا عملہ سری لنکا، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے تھا اور گفتگو کی زبان وہی ولایت کی زبان یعنی انگریزی۔ ادھر مہدی کا یہ حال کہ ’زبان یار من ترکی مگر ترکی نمی دانم‘ لیکن یار کو منانا بھی تھا۔ یعنی کام بھی ضروری تھا، پیٹ پوجا بھی کرنی تھی لہذا Thisاور That کے عادی ہو گئے۔
1983 میں کراچی آ گئے، وہاں فوٹوگرافی سیکھی اور پھر کچھ ساز و سامان کے ساتھ پرکوتہ واپس اپنے گاؤں آ گئے اور 1985 میں وہیں پر فوٹوگرافی کی دکان کھول دی۔
قرار نہیں تھا لہذا ایک دو سال بعد دکان بھائی کو سونپ دی اور 1989 میں سکردو کی راہ لی۔
سکردو میں مہدی نے سائن بورڈز لکھنے کی دکان کھول دی، بغیر کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے کام میں مہارت حاصل کی اور بڑا نام کمایا۔
لیکن مہدی صرف ایک عام روایتی پینٹر نہیں بلکہ شاعری اور ادب سے شغف ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔
انہیں بلتی ادب و شاعری سے بے حد دلچسپی ہے اور اسی شوق کے ہاتھوں مجبور وہ بلتستان کے کونے کونے میں گئے تاکہ بلتی کلاسیکل شعرا کے قصائد، مرثیے، بحرطویل اور ہاتھ کی لکھی گئی بیاضیں جمع کر سکیں۔
بازار میں جس بھی بزرگ عمر والی شخصیت سے ملاقات ہوئی، ان سے پرانے کلام کے بارے میں گفتگو کی اور جس کسی سے کوئی مخطوطہ ملا رقم دے کر حاصل کر لیا۔
ان کے پاس بوا عباس کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن مجید اور بلتستان کے کلاسیکل شعرا کی کئی بیاضیں موجود ہیں۔
بحر طویل کے عظیم صوفی شاعر بوا جوہر کے کلام کے لیے ان کے گاؤں ہلدی خپلو گئے اور ان کا مستند کلام حاصل کیا بلکہ یہ ایک دلچسپ واقعہ ہے، جس کا آغاز کراچی سے ہوتا ہے جب مہدی وہاں تھے۔
انہیں معلوم ہوا کہ ایبی سینا پی آئی اے مسجد کراچی کے موذن حاجی محمد حسین جو سکردو سے ہیں اور انہیں بوا جوہر کے بحر طویل ازبر یاد ہیں۔
مہدی نے ان مؤذن کی منت سماجت کی اور بوا جوہر کی مشہور بحر طویل مذمت دنیا، احمد کوفی، بربر اور خیبر حاصل کیا اور بعد ازاں ہلدی خپلو جا کر بوا جوہر کے نواسے اخون اکبر سے ان بحر طویل کا شین قاف درست کیا۔
مہدی پینٹر کے ہی جمع کردہ کلام کو بلتستان بک ڈپو سکردو نے 1998 میں ’گلستان قصائد‘ کے نام سے چھاپا ہے، جس میں راجہ مراد علی خان، راجہ حیدر علی خان، راجہ حسین خان محب، راجہ ذاکر علی خان ذاکر، بوا نظام علی غورسے، راجہ محمد علی شاہ بیدل اور بوا جوہر کے بلند پایہ قصائد ہیں۔
مہدی پینٹر کے ہی اکھٹے کیے گئے مرثیوں اور نوحوں کا مجموعہ بلتستان بک ڈپو نے 1997 میں ’مجموعہ مصائب‘ کے نام سے شائع کیا ہے جس میں ان متذکرہ بالا کلاسیکل شعرا کا رثائی کلام موجود ہے۔
گو آمدن نہ ہونے کے برابر ہے لیکن مہدی کا شوق انہیں نچلا بیٹھنے نہیں دیتا ہے۔ ان کے پاس بلتی مثنویوں کا ذخیرہ موجود ہے۔
علاوہ ازیں مختلف اخبارات، رسائل اور میگزین سے منتخب شدہ اقوال زریں، اشعار اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے والے کلمات کے پلندے پڑے ہوئے ہیں جو وہ ’باتوں کی خوشبو‘ کے نام سے چھاپنا چاہتے ہیں مگر ان کے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں اور کوئی ایسا ادارہ یا محکمہ بھی کہاں جو اس سلسلے میں مدد کرے۔
مہدی کا کمال یہ ہے کہ وہ جس ملک کے بھی سیاح سے ملیں وہ اس کے ملک کی کوئی اہم بات ضرور بتاتے ہیں یعنی اس ملک کی کوئی مشہور پراڈکٹ کا نام خاص طور پر گاڑیوں اور کاروں کے نام تو انہیں ازبر یاد ہیں۔
مثلاً اگر کوئی سیاح کہتا ہے کہ اس کا تعلق جرمنی سے ہے تو مہدی جھٹ سے ووکس ویگن، بی ایم ڈبلیو، مرسیڈیز اور اوڈائی کا نام لے لیتے ہیں۔
اگر کوئی سیاح کہے کہ وہ امریکہ سے آیا ہے تو مہدی کی زنبیل میں امریکہ کے بارے میں بھی بہت کچھ ہے وہ کسی تردد کے فوری کہہ دیتے ہیں کہ امریکہ کا دارالحکومت واشنگٹن ہے اور ریاستوں میں اوہائیو، ٹیکسس، واشنگٹن اور ہیوسٹن وغیرہ ہیں۔
کاروں میں بینٹلے، کیڈلاک، شیورلٹ، فورڈ، جیپ اور صدور میں آئزن ہاور، نکسن، بش سینر و بش جونیئر وغیرہ وغیرہ۔
اس پر اکتفا نہیں بلکہ کوئی کہہ دے کہ وہ سوئٹزرلینڈ سے آیا ہے تو مہدی سوئس گھڑیوں کے نام فرفر بتانے لگتے ہیں کہ بندہ انگلی دانتوں میں داب لیتا ہے۔
غرض برطانیہ، جاپان اور دیگر معروف ملکوں کی اشیا کے نام ان کی نوک زبان پر ہے جسے سن کر سیاحوں کو بڑی حیرت ہوتی ہے۔
ان کے پاس ایک چھوٹی سے پاکٹ سائز ڈائری ہر وقت موجود رہتی ہے، جس میں متعدد ملکوں کے سیاحوں نے اپنے دلچسپ تاثرات ثبت کیے ہیں۔
ان تحریروں میں ان کی خوش اخلاقی اور بلتستان کی خوب صورتی کا بڑا تذکرہ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی یہ ڈائری سیاحوں کا ایک خوبصورت روزنامچہ ہے جو مختلف ملکوں کے لہجوں اور جذبات سے مزین ہے۔ ہر لفظ میں حلاوت، اپنائیت اور شیرینی ہے جو براہ راست دلوں کی کیفیت بیان کرتی ہے۔
ان میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، پولینڈ، ہنگری، نیدرلینڈ ،آسٹریا، نیوزی لینڈ، نیپال، جاپان، بیلجیئم، چیک رپبلک، سپین، ارجنٹائن، آسٹریلیا، سوئٹزرلینڈ اور نہ جانے کہاں کہاں کے سیاح شامل ہیں۔
نیپال کے مشہور کوہ پیما مینگما شیرپا نے بھی لکھا ہے کہ ’میں کے ٹو سر کرنے آیا ہوں، سکردو میں مہدی سے مل کر خوشی ہوئی اور سکردو کے لوگ گریٹ ہیں۔‘
اسی طرح چیک رپبلک کے جیکب نامی سیاح نے ڈائری میں لکھا ہے کہ وہ دوسری دفعہ بلتستان آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ارندو باشا شگر میں مِس دینا کے قائم کردہ ہیلتھ سنٹر( ہسپتال) کی مدد کرنے آئے ہیں، یہاں کے لوگ بہت اچھے ہیں۔‘
مہدی ایک عام شخص ہیں لیکن انہوں نے درجنوں ممالک کے سیاحوں سے بلتستان کی تعریف و توصیف کروائی ہے۔
اگر یہی کام کوئی ادارہ، کوئی بڑا شخص یا کوئی سفارت خانہ کرتا تو بڑی ھاھا کار مچائی جاتی اور ان پر توصیف و تعریف کے ڈونگرے برسائے جاتے۔
مگر یہ عوامی سفیر اپنی دھن میں مگن ہے، خاموش خدمت ہے جو جاری ہے۔
مہدی پینٹر کی تمام اہم ادبی و علمی شخصیات سے دوستی کا رشتہ ہے۔ ان کی چھوٹی سی دکان میں ہم نے جن شعرا کو دیکھا ان میں شیخ غلام حسین سحر، راجہ محمد علی صبا، محمد حسن حسرت، پروفیسر حشمت کمال الہامی، پروفیسر خورشید احمد کے علاوہ محمد عباس کھرگرونگ، پروفیسر تہذیب الحسن، چاچا ندیم شامل ہیں۔
ان کے علاوہ نادر امان، وزیر غلام علی غمگین، غلام حسن حسنی، محمد علی مجروح سمیت حاجی غلام حسین طالب، اخون حکیم، محمود فردوسی، باقر حاجی، احسان دانش، غرض ہر مقبول عام شاعر و ادیب کو لکڑی کی بینچ پر بیٹھے ان سے محو گفتگو دیکھا ہے۔
دکان کے عقب میں شہر خموشاں ہیں جہاں کئی نابغہ روزگار پیوند خاک ہیں۔
ابن انشا نے کیا سچ کہا ہے!
سب مایا ہے - سب چلتی پھرتی چھایا ہے
اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے
سب مایا ہے۔