’دل سے:‘ جب اے آر رحمان نے پہلی بار لتا اور گلزار کے ساتھ کام کیا

لتا نے جب فلم ’دل سے‘ کا گیت ریکارڈ کروایا تو باہر نکل کر کہا، ’یہاں تو میرا کسی انسان سے آنکھوں کا کوئی ربط ہی نہیں ہو رہا، ایسا لگتا ہے میں اندھی ہوں!‘ 

اے آر رحمان اور لتا منگیشکر پہلی بار 1998 میں بننے والی فلم ’دل سے‘ میں اکٹھے ہوئے (کری ایٹو کامنز)

یوٹیوب پر 1999 کے فلم فیئر ایوارڈ شو کی ایک ویڈیو موجود ہے۔ دس منٹ کے بلیک اینڈ وائٹ کلپ میں پہلے 1998 کے بہترین گانے چلائے جاتے ہیں پھر بیسٹ میوزک ڈائریکٹر کا ایوارڈ دیا جاتا ہے۔

اگر آپ جاننا چاہیں کہ اے آر رحمان اپنے دور سے کتنا آگے تھے تو محض یہ کلپ دیکھ لیجیے۔ جتن للت کے ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘ کے سوا ’دل سے رے‘ کے سامنے باقی تمام گانے ایک دم ٹھس ہو جاتے ہیں۔

 25 برس بعد آج بھی اے آر رحمان کی موسیقی اتنی تازہ ہے جتنی سری لنکا کی ورلڈ کپ میں پاکستان سے شکست۔ 

’دل سے‘ پہلی فلم تھی جس میں لتا جی اور گلزار صاحب نے رحمان کے ساتھ کام کیا۔ اس کے گیت ’جیا جلے جاں جلے‘ کی ریکارڈنگ کے لیے لتا جی نے بمبئی سے چینئی کا سفر کیا تھا۔

گلزار صاحب ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ رحمان کے کام کرنے کے طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ دھن بناتے ہی وہ آواز کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ معروف یا غیر معروف کوئی بھی لیکن ایسا گلوکار چاہیے جس کی آواز اس کے تخیل سے مطابقت اور دھن سے مماثلت رکھتی ہو، ایک فلم ڈائریکٹر کی طرح جس کے ذہن کی پردے پر کسی کردار کے لیے ایک اداکار کا چہرہ نقش ہوتا ہے۔ 

جیا جلے کمپوز ہو چکا اور بول لکھے جا رہے تھے کہ ایک دن گلزار صاحب نے لتا منگیشکر کا نام پیش کیا۔ رحمان نے پوچھا، ’کیا لتا ایک گیت کے لیے بمبئی سے چنئی کا سفر کریں گی؟‘

گلزار صاحب نے کہا، ’میں ان سے بات کرتا ہوں۔‘

 لتا جی نے خوشی کے ساتھ ساتھ اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ رحمان سے میری پہلے کبھی ملاقات ہوئی اور نہ ان کے سٹوڈیو میں میرا کوئی جاننے والا ہے۔ گلزار صاحب نے اپنی موجودگی کا یقین دلایا تو لتا جی چنئی جانے کے لیے تیار ہو گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 جب رحمان اچھی طرح دھن واضح کر چکے اور لتا جی ریکارڈنگ کیبن پہنچیں۔ ان کے لیے یہ انوکھا تجربہ تھا۔

اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے گلزار صاحب کہتے ہیں، ’لتا جی نے مجھ سے کہا یہاں تو میرا کسی انسان سے آنکھوں کا کوئی ربط ہی نہیں ہو رہا، ایسا لگتا ہے میں اندھی ہوں!‘ 

گلزار صاحب کیبن کے شیشے کے دروازے کے باہر ایک سٹول پر بیٹھ گئے جہاں سے لتا جی اور رحمن دونوں انہیں دیکھ سکتے تھے۔ یوں ’جیا جلے جاں جلے‘ کی ریکارڈنگ ہوئی۔

اگر آپ کو گانا یاد ہو تو اس کے انتروں میں ملیالم کے بول شامل ہیں۔

 دراصل گیت کی ریکارڈنگ کے بعد ہمیشہ کی طرح رحمان اسے مزید بہتر بنانے کے لیے کام کرتے رہے۔ دس روز بعد انہوں نے گلزار صاحب کو کورس کی شکل میں گائے ہوئے ملیالم کے یہ بول بھیجے کہ انہیں ہندی میں ڈھال دیجیے۔ گلزار صاحب نے کہا ’یہ ملیالم کی لوک موسیقی کا انداز ہے جو ہندی میں ویسا خوبصورت نہیں لگے گا، ساؤنڈ کا مجموعی تاثر مطلب جاننے نہ جاننے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔‘

اس فلم کا گیت ’چھیا چھیا‘ شہرت کے معاملے میں باقی سب گانوں سے آگے نکل گیا جس میں شاہ رخ خان چلتی ٹرین پر رقص کرتے ہیں۔

 رحمان کے مطابق ’میں نے یہ گیت اپنے غیر فلمی البم ’وندے ماترم‘ (1997) کے لیے کمپوز کیا تھا لیکن یہ باقی سب گانوں سے میل نہیں کھا رہا تھا سو میں نے اسے سائیڈ پر رکھ دیا۔ جب منی رتنم نے دھنیں مانگیں میں نے سکھوندر سنگھ کی آواز میں ریکارڈ شدہ پیش کر دیا۔ انہوں نے کہا بہت اچھا ہو گیا میں شاہ رخ کو ٹرین پر رقص کرانا چاہتا ہوں یہ دھن اس کے لیے بالکل فٹ بیٹھتی ہے۔‘

 منی رتنم نے رحمان کو انتہائی مختصر انداز میں بتایا تھا کہ ’دل سے‘ محبت کی ایک کہانی ہے جو سات مختلف مراحل سے گزرتی ہے اور اس دوران انہیں برابر خدشہ رہتا ہے کہ یہ کسی کنارے نہیں لگ سکے گی۔ اسی تھیم کو لے کر ’ست رنگی رے‘ کمپوز ہوا۔ 

فلم میں ایک گیت ہندوستان کے روایتی فلمی سنگیت کے انداز میں کمپوز ہوا، ’اے اجنبی تو بھی کبھی۔‘ رحمان نے انٹرلیوڈ میوزک کے لیے گلزار سے مختصر بول مانگے تو انہوں نے لکھے ’پاکھی پاکھی پردیسی۔‘ پردیسی پرندوں کا استعارہ دراصل دو اجنبی پریمیوں کے لیے استعمال ہوا۔ 

ویسے تو اس فلم کا ہر گیت ماسٹر پیس ہے لیکن ٹائٹل ٹریک ’دل سے رے‘ کی الگ ہی کلاس ہے۔ اس کے بول، اس کی دھن اور سازوں کا ماہرانہ استعمال اسے ایک مکمل اور لافانی شاہکار بناتے ہیں۔ 

اس گیت میں پت جھڑ میں شاخوں سے جدا ہونے والے پتوں کا استعارہ دو بچھڑنے والے دلوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جس خوبصورتی سے گلزار صاحب یہ استعارہ لے کر چلتے ہیں وہ کسی اور گیت کار کے بس کی بات نہ تھی۔ 

فلم کی ایک خاص بات رحمان متاثر کن بیک گراؤنڈ میوزک ہے۔ منی رتنم نے ایک انٹرویو میں بیک گراؤنڈ موسیقی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس بیک گراؤنڈ میوزک کی وجہ سے ہم ناکام محبت کی شدت اور اس شدت سے پھوٹتی اذیت کو محسوس کر سکتے ہیں، یہ کام مکالمے یا کسی اور طرح سے ممکن نہ تھا۔‘

 منی رتنم نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے گذشتہ 25 برس سے یہ فلم نہیں دیکھی۔ بالی وڈ کے اکثر پرستاروں کا یہی حال ہو گا۔ مگر ان 25 پرسوں میں کیا ایسا بھی کوئی دن ہو گا جب سینکڑوں افراد نے اس کا کوئی نہ کوئی گیت نہ سنا ہو؟ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ