کرکٹ کے میدان میں پاکستان اور انڈیا کی تاریخ بھی تقریباً اتنی ہی پرانی ہے جتنی ان دونوں ممالک کے آپسی تعلقات کی جو کبھی اچھے اور زیادہ تر برے ہی رہے ہیں۔
شائقین اس مقابلے کو ایک کشمش، ایک جنگ سے تشبیہ دیتے ہیں جبکہ کئی افراد کے مطابق اب یہ ایک تہوار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
اس رپورٹ میں ہم پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ کے ان مقابلوں پر نظر ڈالیں گے، جو کسی نہ کسی طرح دونوں ملکوں کے شائقین کرکٹ کے لیے یادگار رہے ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ کی تاریخ کا پہلا مقابلہ 1952 میں ہوا تھا لیکن اس وقت صرف ٹیسٹ کرکٹ کا ہی دور تھا اس لیے دونوں ٹیموں کے کھلاڑی سرخ گیند کی کرکٹ میں ہی اپنی کارکردگی کے جوہر دکھاتے رہے۔
برقی میڈیا اور سوشل میڈیا نہ ہونے کے باعث اس وقت کی زیادہ تر پرفارمنسز اب کرکٹ میگزینوں کے صفحات پر ہی وجود رکھتی ہیں۔
1978 وہ سال تھا، جس نے نہ صرف پاکستان انڈیا کی مقابلے بازی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ کرکٹ کو بھی ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔
محدود اوورز کی کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ
یوں تو پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہر کھیل کو ہی سب سے بڑا مقابلہ قرار دیا جاتا ہے لیکن بات آئے کرکٹ کی تو یہ دعویٰ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔
اور کرکٹ میں بھی اگر معاملہ ہو ایک روزہ میچ کا تو یہاں اس دعوے کی شدت میں بلاشبہ کئی سو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس کی وجہ دونوں ممالک کے درمیان تلخ تعلقات ہوں یا اس میچ کو نہ صرف انڈیا اور پاکستان بلکہ دنیا بھر میں دیکھنے والے شائقین کی تعداد، یہ مقابلہ ہمیشہ سے کچھ الگ ہی لیول پر دیکھا جاتا ہے۔
1978 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک روزہ کرکٹ میں ہونے والا پہلا مقابلہ آخری گیند تک جاری رہا اور پھر۔۔۔
انڈیا چار رنز سے جیت گیا۔
دونوں ممالک کے درمیان 14 اکتوبر کو احمدآباد میں ورلڈ کپ کے دوران کھیلے جانے والے میچ کا نتیجہ تو اسی دن ہی معلوم ہو گا لیکن اس سے قبل کھیلے جانے والے آخری میچ میں انڈیا نے پاکستان کو بڑے مارجن سے شکست دی تھی اور پھر سری لنکا کو ہرا کر ایشیا کپ کا اعزاز ایک بار پھر اپنے نام کیا۔
اسی طرح 2019 کے ورلڈ کپ کے دوران دونوں ممالک کے میچ کی بات کی جائے تو انگلینڈ کے شہر مانچسٹر میں سجنے والے اس مقابلے میں بھی انڈیا نے پاکستان کو شکست دی تھی۔
دونوں ممالک کے درمیان ایک روزہ مقابلوں کی مجموعی صورت حال پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں یقینی طور پر پاکستان کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔
ایک روزہ کرکٹ میں پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں 73 میچز جیت کر برتری حاصل ہے جبکہ انڈیا صرف 56 میچ ہی جیت سکا ہے۔
1992 میں انڈیا اور پاکستان پہلی بار ورلڈ کپ میں آمنے سامنے ہوئے تو سڈنی میں کھیلا جانے والا یہ میچ 43 رنز سے انڈیا نے جیت لیا لیکن اس ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم نے ٹرافی جیت کر اس شکست کا مداوا کر دیا۔
1996 میں پاکستانی بلے بازی کے پہلے 13 اوورز کے علاوہ انڈین ٹیم نے پاکستانی ٹیم کو کھل کر نہ کھیلنے دیا اور بنگلور میں ہونے والا یہ مقابلہ بھی انڈیا کے نام رہا۔
1999 میں بھی پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں شکست ہوئی اور پھر 2003 میں تو سعید انور کی سینچری بھی پاکستان کو فتح نہ دلوا سکی اور سچن تندولکر کے 98 رنز انڈیا کے لیے فتح گر ثابت ہوئے۔
2011 میں انڈیا کے شہر موہالی میں ہونے والے سیمی فائنل میں ایک بار پاکستانی ٹیم کو سچن تندولکر کی اننگز کی بدولت شکست کا بوجھ اٹھانا پڑا اور 2015 میں سچن تندولکر کی جگہ وراٹ کوہلی نے لے لی، لیکن نتیجہ وہی۔
اس بار کیا ہو گا؟
انڈیا نے اپنا آخری بین الااقوامی ٹائٹل 2013 میں جیتا تھا، جبکہ رواں سال انڈیا نے پانچ سال بعد ایشیا کپ جیتا ہے۔
انڈین ٹیم کی فارم کو دیکھا جائے تو انڈین مداحوں کی امیدیں کچھ غلط بھی نہیں ہیں۔
انڈیا کا ٹاپ آرڈو ہو یا مڈل آرڈر تمام ہی بلے باز بھرپور فارم میں آ چکے ہیں جبکہ بولنگ کے شعبے میں بھی انڈین ٹیم کو بڑے عرصے بعد جسپریت بمرا کی خدمات حاصل ہوئی ہیں۔
ان کے علاوہ محمد سراج اور کلدیپ یادو بھی اچھی بولنگ کرتے چلے آ رہے ہیں جبکہ شاردل ٹھاکر اور رویندر جدیجہ کے ساتھ ساتھ ہردک پانڈیا بھی انڈین ٹیم کے لیے اہم اثاثہ ہیں۔
انڈین بلے بازی میں شھبمن گل کی کمی تو ضرور محسوس ہو گی لیکن کپتان روہت شرما اور بلے باز کے ایل راہل کی فارم میں واپسی انڈیا کے لیے اچھی خبر ثابت ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب پاکستانی ٹیم پر نگاہ ڈالی جائے تو پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ لائن میں نئے آنے والے عبداللہ شفیق اور سعود شکیل دونوں ہی اچھی فارم میں ہیں لیکن امام الحق اور کپتان بابر اعظم کچھ آؤٹ آف فارم ہیں، جو پاکستانی ٹیم کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
نسیم شاہ کی کمی پاکستانی ٹیم کو بہت شدت سے محسوس ہو رہی ہے کیونکہ شاہین آفریدی بھی اب تک نئی گیند سے وہ کمال دکھانے میں کامیاب نہیں رہے جس کی ان سے امید کی جاتی ہے۔
محمد رضوان مڈل آرڈر میں اینکر کا رول ادا کرتے ہوئے اننگز کو بھرپور انداز میں آگے بڑھانے میں تو کامیاب دکھائی دے رہے ہیں لیکن ابھی تک انہیں اس ساتھی کی تلاش ہے جس کے ساتھ مل کر وہ میچ ختم بھی کر سکیں۔
گو کہ سری لنکا کے خلاف پاکستانی ٹیم نے 345 رنز کا ہدف پورا کر کے بظاہر ایک ناممکن کارنامہ سرانجام دیا ہے لیکن اس سے پاکستانی ٹیم کو یقینی طور پر وہ اعتماد ضرور ملا ہو گا جس کی انہیں انڈیا کے سامنے کے لیے ضرورت ہے۔
’پاکستانی ٹیم کو حیدرآباد میں بہت سپورٹ ملتی ہے‘
ورلڈ کپ 2023 میں انڈین ریاست گجرات کے شہر احمدآباد میں ہونے والے انڈیا پاکستان مقابلے کے حوالے سے نہ صرف شائقین بلکہ انڈین صحافی بھی پرجوش ہیں۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے انڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سے ان کے خیالات جاننے کے لیے رابطہ کیا۔
حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی این جگنا داس کا کہنا تھا: ’میں 1984 سے کرکٹ کو کور کر رہا ہوں۔ کرکٹ کو انڈیا میں ایک مذہب قرار دیا جاتا ہے لیکن اس بار ورلڈ کپ کے حوالے سے جوش تھوڑا کم ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پہلے ہم کھلاڑیوں سے جا کر مل سکتے تھے لیکن اب تو کھلاڑیوں سے میلوں دور رکھا جاتا ہے۔ کھلاڑیوں کی پریس کانفرنس میں بھی گارڈز موجود ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’1984 میں پاکستانی ٹیم آئی تو کھلاڑی آپس میں مذاق کرتے تھے۔ تسلیم عارف بہت اچھی غزل گایا کرتے تھے جبکہ وسیم راجہ تو انڈین کیمپ میں ہی بیٹھے رہتے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق: ’حیدرآباد میں پاکستانی ٹیم کو بہت سپورٹ ملتی ہے۔ پاکستانی ٹیم کی تعریف کرنی چاہیے کہ وہ حیدرآباد آئی۔‘
این جگناداس کا کہنا تھا کہ ’حیدرآباد میں سب لوگ بابر اعظم کے فین ہیں۔ جیسے لوگ کوہلی کے فین ہیں ویسے ہی یہاں بابر اعظم کے فین ہیں کیونکہ وہ بہت اچھی کرکٹ کھیلتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حیدر آباد اور پاکستان کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے۔ تقسیم کے بعد جو لوگ پاکستان گئے ان کے حیدرآباد اور لکھنؤ میں رشتہ دار رہتے ہیں۔ شعیب ملک کی اہلیہ ثانیہ مرزا کا تعلق بھی حیدر آباد سے ہے۔‘
’انڈیا پاکستان مقابلہ ایک تہوار بن چکا ہے‘
انڈین صحافی ڈاکٹر محمد احتشام الحسن کا کہنا ہے کہ ’انڈیا پاکستان ہر کرکٹ دیکھنے والے کے لیے ایک پسندیدہ ایونٹ ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق: ’انڈیا اور پاکستان کا میچ برصغیر میں ایک نیا تہوار بن چکا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’شائقین ٹیموں سے ہٹ کر اپنے پسندیدہ کھلاڑی پر بھی خاص نظر رکھتے ہیں، وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کہ ان کے پسندیدہ کھلاڑی نے کتنے سکور بنائے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے سابق کھلاڑی بابر اعظم اور وراٹ کوہلی کا موازنہ کرتے ہیں تو شائقین بھی اس چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
انڈیا اور پاکستان ورلڈ کپ میں سات بار مدمقابل ہوئے ہیں اور ہر بار پاکستانی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن کیا اس بار پاکستان اس تاریخ کو بدلنے میں کامیاب ہو پائے گا؟
نوٹ: اس رپورٹ میں سہیل اختر قاسمی کی اضافی رپورٹنگ شامل ہے۔