الیکشن: ایک کروڑ ووٹرز کے حق رائے دہی سے محروم ہونے کا خدشہ

پتن ترقیاتی تنظیم نے آئندہ عام انتخابات میں دھاندلی اور ایک کروڑ 30 لاکھ مردوں اور خواتین کے حق رائے دہی سے محروم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

16 اکتوبر 2022 کو کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستوں کے ضمنی انتخاب کے دوران ایک خاتون ووٹر پولنگ سٹیشن میں اپنا ووٹ ڈال رہی ہے۔ (آصف حسن / اے ایف پی)

غیر سرکاری ترقیاتی تنظیم پتن نے آئندہ عام انتخابات میں دھاندلی اور ایک کروڑ 30 لاکھ مردوں اور خواتین کے حق رائے دہی سے محروم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

پتن سال 1992 میں قائم کیا جانے والا ادارہ ہے، جو انتخابات اور ڈیزاسٹر کے حوالے سے کام کرتا ہے۔

آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے پتن  کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ موجودہ ووٹر لسٹ میں پریشان کن رجحانات دریافت ہوئے ہیں اور صوبوں میں ووٹرز کی وسیع پیمانے پر اور کم رجسٹریشن سے مردوں اور خواتین کے بڑے پیمانے پر حق رائے دہی سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ آئندہ عام انتخابات میں دھاندلی اور بدعنوانی کی غیر معمولی گنجائش پیدا ہونے کا امکان ہے۔

بیان کے مطابق الیکشن کمیشن اور نادرا نے ملک کے 134 میں سے 102 اضلاع میں اہل افراد کو ووٹر کے طور پر رجسٹر نہیں کیا جبکہ 17 اضلاع میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد اصل اہل افراد سے زیادہ ہے۔

صوبہ بلوچستان کے 31 اضلاع اور تقریباً تمام حلقوں میں سے تقریباً دو تہائی اہل آبادی کو خارج کر دیا گیا ہے جبکہ پنجاب میں بہترین سڑکیں اور نیٹ ورک ہونے کے باوجود 40 اضلاع میں رجسٹریشن کم ہے جبکہ 12 اضلاع میں غیر معمولی حد سے زیادہ رجسٹریشن ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ووٹرز کے اعداد و شمار کے تجزیے سے یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ 35 میں سے 21 اضلاع میں اہل افراد کی نمایاں تعداد انتخابات میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے سے محروم ہو گئی ہے۔ بظاہر سندھ واحد صوبہ ہے جہاں زیادہ رجسٹریشن نہیں ہوئی۔

پتن کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق مری اور جہلم کی بالترتیب 78 فیصد اور 75 فیصد آبادی بطور ووٹر رجسٹر تھی۔ ان دو اضلاع میں اوسطاً 18 فیصد اضافی (مشکوک) ووٹ موجود ہیں جبکہ کوہستان میں رجسٹریشن صرف 18 فیصد تک کم تھی۔ بلوچستان کے آٹھ اضلاع جن میں پنجگور، کیچ، خضدار، سوراب، شیرانی، واشک، کوہلو میں صرف 25 فیصد آبادی بطور ووٹر رجسٹر تھی۔

تازہ ترین مردم شماری کے مطابق 2023 میں پاکستان کی آبادی 241.49 ملین تھی جبکہ جولائی میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ویب سائٹ پر جاری کردہ تفصیلات کے مطابق ملک میں ووٹرز کی تعداد 127 ملین تھی۔

پتن کے مطابق 2023 کی مردم شماری کے مطابق خواتین اور مردوں کا تناسب 49:51 ہے، جو کہ ووٹرز کی ناقص رجسٹریشن کی وجہ سے تین پوائنٹس مزید گھٹ کر 46:54 ہوگیا ہے۔

پتن کے بیان کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے 48 حلقوں میں جیت کا مارجن پانچ ہزار سے کم تھا اور قومی اسمبلی کے 40 حلقوں میں یہ 5001 سے  10 ہزار کے درمیان تھا۔

وضاحت

ادھر الیکشن کمیشن نے ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ زیر دفعہ 27 الیکشن ایکٹ 2017 کسی بھی ووٹر کا اندارج اس کے شناختی کارڈ کے مطابق مستقل یا موجودہ پتہ پر کیا جاتا ہے جس کا آبادی کے اعداوشمار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’مردم شماری کسی بھی شخص کی ذاتی موجودگی پر کی جاتی ہے جبکہ ووٹر کا اندراج شناختی کارڈ کے پتہ کے مطابق ہوتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ تمام اہل افراد کے ووٹ کے اندراج  کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی فہرستوں کو 28 ستمبر 2023 سے غیر منجمد (De-freeze) کیا ہوا ہے جوکہ زیر دفعہ 39 الیکشنز ایکٹ 2017 مورخہ 20 جولائی کو منجمد (Freeze) کی گئی تھیں۔

بیان کے مطابق الیکشن کمیشن روزانہ کی بنیاد پر میڈیا کے ذریعے سے عوام کو ووٹ کے اندراج، اخراج و درستگی کے بارے میں مسلسل آگاہی فراہم کر رہا ہے، جو 25 اکتوبر 2023 تک جاری رہے گا۔

 مزید یہ کہ الیکشن کمیشن نے تمام آٹھ لاکھ سے زائد افراد، جنہیں نادرا کی طرف سے شناختی کارڈ جاری کیے گئے ہیں، کا ڈیٹا یکم اکتوبر 2023 کو نادرا سے حاصل کر لیا تھا جس کی ڈیٹا انٹری جاری ہے اور یہ تمام اہل افراد آئندہ عام انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال  کریں گے۔

اس کے علاوہ بھی 25 اکتوبر 2023 الیکشن کمیشن نے ووٹوں کے اندراج، اخراج و درستگی کی تاریخ مقرر کی ہے، لہذا ایسے تمام افراد جنہیں 25 اکتوبر 2023 تک شناختی کارڈ جاری ہوں گے، ان کے ووٹوں کے اندراج کو یقینی بنایا جائے گا اور مزید حلقہ بندی (Delimitation)  کے عمل سے ووٹرز کے حق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

نااہل ووٹرز کے ناموں کو حذف کرنے کی سفارش

پتن نے اپنی سفارشات میں الیکشن کمیشن، نادرا اور نگران حکومت کو نااہل ووٹرز کے ناموں کو حذف کرنے کے لیے دستیاب وسائل استعمال کرنے اور انتخابات میں کسی کو بھی حصہ لینے سے محروم نہ رکھنے پر زور دیا ہے۔

سفارشات میں انتخابات کا وقت پر انعقاد یقینی بنانے کے لیے اس عمل کو ایک دو ہفتوں میں مکمل کرنے کا بھی کہا گیا ہے جبکہ زیادہ تر غیر رجسٹرڈ ووٹر خواتین، غریب اور نوجوان ہیں۔

بیان کے مطابق: ’یاست کو شناختی کارڈ کے اجرا اور ووٹ کے اندراج کی پالیسی میں اصلاح کرنی چاہیے جبکہ پیدائش اور وفات کے اندراج کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔‘

نادرا بھی لوگوں کو شناختی کارڈ دینے میں ناکام‘

پتن ترقیاتی تنظیم کے نیشنل کوآرڈینیٹر اور فافن کے سابق سربراہ سرور باری نے کہا کہ اگر اہل افراد کو بطور ووٹر رجسٹر نہیں کیا جاتا تو یہ الیکشن کمیشن اور نادرا کی ناکامی ہوگی۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ تمام اعداد و شمار الیکشن کمیشن اور پاکستان ادارہ برائے شماریات کے ہیں، جس کا پتن نے تجزیہ کیا ہے۔

سرور باری کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹرز کی تعداد اور حلقہ بندیوں میں دکھائی گئی آبادی کا جائزہ لیا گیا جس میں ووٹرز کی تعداد میں واضح فرق نظر آیا ہے، ان تمام خامیوں کو نہ دیکھنا الیکشن کمیشن کی نااہلی ہے جبکہ نادرا بھی لوگوں کو شناختی کارڈ دینے میں ناکام ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’اگر اہل ووٹرز رجسٹر نہیں ہوتے تو یہ کس کی نااہلی ہے؟ آئین کے مطابق صاف شفاف انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور اگر اہل افراد کو بطور ووٹر رجسٹر نہیں کیا جاتا تو یہ الیکشن کمیشن اور نادرا کی ناکامی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان