بلوچستان جلسوں پر پابندی کی خلاف ورزی، بی این پی پر مقدمہ

محکمہ داخلہ و قبائلی امور حکومت بلوچستان کے مراسلے کے مطابق جن علاقوں میں ان سرگرمیوں پر پابندی ہے ان میں کوئٹہ شہر کے ریڈزون سمیت حساس علاقے بھی شامل ہیں۔

15 اکتوبر،2023 کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے کارکنان ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک ہیں(کریڈٹ: بی این پی فیس بک پیج)

بلوچستان کی نگران حکومت نے صوبے میں ریلیوں، جلسے اور جلوس پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر پہلا مقدمہ سیاسی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔

13 اکتوبر کو محکمہ داخلہ و قبائلی امور حکومت بلوچستان کے جاری کردہ مراسلے کے مطابق جن علاقوں میں ان سرگرمیوں پر پابندی ہے ان میں کوئٹہ شہر کے ریڈزون سمیت حساس علاقے بھی شامل ہیں۔

مراسلے میں ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کو ہدایت کی گئی کہ ’امن وامان برقرار رکھنے اور عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے دفعہ 144 کے نفاذ پر من و عن عمل درآمد کرایا جائے۔‘

حکومی مراسلے کے بعد 15 کتوبر، 2023 بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک مظاہرہ کیا گیا جس میں خواتین اور بچے بھی شریک تھے۔

اس مظاہرے کے بعد بی این پی کے ضلعی صدر غلام نبی مری سمیت کئی دیگر افراد کے خلاف کوئٹہ کے سول لائن تھانے میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمہ ایس ایچ او جاوید بزدار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

مقدمے کے متن میں کہا گیا کہ ’مورخہ 15 اکتوبر کو غلام نبی مری کی قیادت میں 100/120 خواتین اور مرد ریلی کی شکل میں پریس کلب کے سامنے عدالت روڈ پر آ کر بیٹھ گئے جس سے آمدورفت اور ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی۔‘

متن میں مزید کہا گیا کہ ’حکومت بلوچستان کی طرف سے دفعہ 144 کے اطلاق کے متعلق مطاہرین کو بتایا گیا اور روڈ بند کرنے سے منع کیا گیا لیکن مظاہرین نے احکامات کی عدم عدولی کرتے ہوئے وڈھ کی صورت حال کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ’اس دوران منورہ بلوچ، شکیلہ دہوار، شمائلہ اسماعیل اور غلام نبی مری نے حکومت کے خلاف تقاریر کیں۔‘

دوسری جانب جب بلوچستان کی نگران حکومت کے وزیراطلاعات جان اچکزئی سے رابطہ کر کے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ’کیا جلسے جلوسوں پر پابندی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں‘ تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بھیجے گئے ایک مختصر جواب میں کہا کہ ’یہ پابندی امن وامان کی صورت حال کے باعث لگائی گئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہریوں کے حقوق کے لیے سرگرم ماہر قانون اور انسانی حقوق کمیشن بلوچستان چیپٹر کے سربراہ حبیب طاہرایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 16 ہے جو شہریوں کو جلسے کرنےکی اجازت دیتا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’اگراس کو کوئی روک تھام ہے تو یہ آئین کے خلاف ہے۔ اگر حکومت اس پرپابندی عائد کرتی ہے تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے اور اگر کوئی پرامن احتجاج کر رہا ہے تو اس کی اجازت حکومت کو دینی چاہیے۔‘

حبیب طاہر کا کہنا تھا کہ ’اس وقت انتخابات کی تیاریوں کے دن ہیں اور حکومت پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ جنوری میں عام انتخابات ہوں گے تو اس موقع پر جلسے جلوس اور اجتماع ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، اگر اس کو روکا جاتا ہے تو یہ غیرقانونی اورغیر آئینی اقدام ہو گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آئین کے ساتھ عالمی انسانی حقوق کے دستاویزات جیسے یو ڈی ایچ آر، اقوام متحدہ کا انسانی حقوق ڈیکلریشن اس میں بھی  پرامن اجتماع کا خیال رکھا گیا ہے، اس پر کوئی قدغن نہیں لگنی چاہیے۔‘

انہوں نے کہا: ’پرامن اجتماع کی اجازت سب کے لیے ہے، جس میں لاپتہ افراد سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو دی گئی ہے، جب تک وہ پرامن رہتے ہیں، ان کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان