کوئٹہ: زلزلے کی افواہ کے بعد لوگ رات گھروں سے باہر سوئے

دوسری طرف ماہرین کہتے ہیں کہ زلزلے کی وقت کی بالکل درست پیشین گوئی کرنا ممکن نہیں ہے۔

کوئٹہ میں 19 جنوری،  2011 کو زلزلے کے بعد شہری رات باہر بسر کر رہے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

بلوچستان افغانستان سے ملحق سرحدی ضلعے چمن کے بارے میں ایک ڈچ ماہر نے زلزلہ آنے کی پیش گوئی کی تھی جو پورے پاکستان میں وائرل ہو گئی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو فون کر کے خبردار کر رہے ہیں۔

ماہر نے کہا تھا کہ چمن ایک فالٹ لائن پر واقع ہے جہاں 48 گھنٹوں کے دوران ایک شدید زلزلہ آنے والا ہے۔

اس سے بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور زلزلے کے خوف کے باعث کوئٹہ میں بعض لوگ گذشتہ رات کو صحن میں سونے پر مجبور ہو گئے۔ 

نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی ادارے ’سولر سسٹم جیولاجیکل سروے‘ نے اتوار کو 48 گھنٹوں کے دوران چمن فالٹ لائن پر ایک طاقتور زلزلے کی پیش گوئی تھی۔ 

اس صورت حال کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ افواہ تھی، جس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔‘ تاہم انہوں نے اس حوالے سے ایک پریس ریلیز بھی جاری کی تھی۔ 

کمشنر کوئٹہ نے اپنے بیان میں کہا کہ میں کوئٹہ کے رہائشیوں کو ایک حالیہ زلزلے کی سرگرمی کی رپورٹ کے بارے میں مطلع کرنا چاہتا ہوں جو اس خطے میں زلزلے کے امکان کی نشاندہی کرتی ہے، محکمہ موسمیات کے ذریعہ اس رپورٹ کی تصدیق ابھی تک نہیں کی گئی ہے۔ 

انہوں نے کہا، ’بار بار عوام کی طرف سے اس بارے میں پوچھا جا رہا ہے اس لیے یہ پریس ریلیز جاری کی جا رہی ہے، ہم اب بھی فرضی مشقیں کر رہے ہیں اور کسی بھی صورت حال کے لیے تیاری کر رہے ہیں، میں سب کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے شہر کی ایمرجنسی سروسز بشمول، پی ڈی ایم اے، آرمی، ایف سی، ریسکیو انتظامیہ، لیویز، پولیس، فائر فائٹرز اور میڈیکل ٹیمیں کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمشنر کا مزید کہنا تھا کہ ایسے تمام پلازے جو نقشوں کے بغیر ہیں یا بوسیدہ ہیں، یا وہ تعمیرات جو نالوں پر بنائی گئی ہیں، ان کے خلاف ایکشن شروع کر دیا گیا ہے، ان کے گرنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں، ہم 24 گھنٹے صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، اگرچہ ہم زلزلے کے صحیح وقت یا شدت کا اندازہ نہیں لگا سکتے، لیکن رہائشیوں کے لیے باخبر رہنا اور تیار رہنا ضروری ہے۔‘ 

 بلوچستان کے ماہر ارضیات ڈاکٹر دین محمد کاکڑ زلزلے کے ماہر ہیں اور چمن فالٹ لائن پر تحقیق بھی کر چکے ہیں، اس کے علاوہ وہ جدید آلات کی مدد سے اس فالٹ لائن کی مانیٹرنگ کرتے رہتے ہیں۔ 

ڈاکٹر دین محمد کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’چمن فالٹ لائن کے حوالے سے خبر گردش کر رہی ہے، ہم نے امریکن یونیورسٹی کے ساتھ مل کر اس پر تحقیق کی ہے، اب بھی اس کی مانیڑنگ کے آلات نصب ہیں، جس کے ذریعے ہم ڈیٹا جمع کر رہے ہیں۔‘ 

انہوں نے بتایا: ’ہماری تحقیق کے مطابق اس فالٹ لائن پر ایک طویل عرصے کے بعد زلزلہ آ سکتا ہے، جس کی مدت آٹھ سے دس سال بعد ہو سکتی ہے، تاہم یہ اس سے قبل اور بعد میں بھی آ سکتا ہے، ڈچ ماہر نے ترکی کے حوالے سے پیش گوئی تھی اور پھر فوری پاکستان کے بارے میں زلزلے آںے کا کہا تھا، جو غلط ثابت ہوا۔‘ 

دین محمد کے مطابق: ’سائنسی تحقیق کی روشنی میں زلزلے کی طویل مدتی پیش گوئی کی جا سکتی ہے، لیکن قلیل مدت کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں: ’چمن میں 1892 میں ایک زلزلہ آیا تھا، جس کی شدت 6.7 تھی، آبادی کم ہونے کی وجہ سے نقصان کم ہوا تھا، ریلوے لائن متاثر ہوئی تھی، اب چمن کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب ہے، یہاں زلزلے کا خطرہ لاحق رہتا ہے، جس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘ 

ڈاکٹر دین محمد نے بتایا: 'اسی طرح کوئٹہ اور غزہ بند فالٹ بھی موجود ہے، جس میں انرجی جمع ہو چکی ہے، اس پر ہم نے مختلف یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر تحقیق کی ہے، جس پر مضامین بھی شائع ہوئے ہیں۔‘ 

 انہوں نے کہا، ’چمن فالٹ پر ہم گذشتہ آٹھ سال سے کام کر رہے ہیں، دو سال قبل نے ہم نے اس لائن پر ایک طویل مدتی زلزلے کے آںے کی پیش گوئی تھی، اب اس پر زلزلے کا لوڈ بن چکا ہے، جبکہ 1892 کے زلزلے کا پیریڈ بھی پورا ہو چکا ہے، یہ فالٹ لائن ساڑھے آٹھ سو سے نو سو کلومیٹر پر محیط ہے، جو پاکستان اور افغانستان کے اندر موجود ہے۔ 

دین محمد کاکڑ نے بتایا: ’کوئٹہ فالٹ یہاں سے قلات تک ہے، جبکہ ان کے درمیان دوسری فالٹ لائن غزہ بند ہے، جو تقریب ڈھائی سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اور ضلع ژوب تک چلی جاتی ہے۔‘ 

ادھر بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ زلزلہ پیما ریسرچ انسٹیٹیوٹ سولر سسٹم جیومیٹری سروے (ایس ایس جی ایس) کی جانب سے کی گئی پیشن گوئی پر کہا کہ زلزلے کی قبل از وقت پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ زلزلہ کب اور کہاں آئے گا۔ 

انہوں نے کہا، ’قدرتی آفات ایک مسلمہ حقیقت ہے، ہماری ایمرجنسی سروسز بشمول ایم ای ار سی، پی ڈی ایم اے، آرمی، ایف سی، سول انتظامیہ، لیویز، پولیس، فائر بریگیڈ اور میڈیکل ٹیمیں کسی بھی ایمرجنسی کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور 24 گھنٹے صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘

انہوں نے شہریوں سے کہا کہ وہ پر سکون رہیں اور مستند ذرائع سے خود کو باخبر رکھیں۔ 

کوئٹہ کے علاقے سریاب کے رہائشی فاروق احمد بھی زلزلے کے افواہ کے سوشل میڈیا پر پھیلنے سے پریشان ہوئے اور انہوں نے جب یہ خبر اپنے گھر والوں کو بتائی تو وہ بھی پریشان ہوئے، جس کی وجہ سے انہوں نے گذشتہ رات کمرے کے بجائے صحن میں سو کر گزاری۔ 

فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں موبائل پر فیس بک دیکھتا ہوں تو وہاں بہت سے خبریں تھیں کہ زلزلہ آ رہا ہے، جس نے مجھے بہت خوف کا شکار کر دیا، جب میں گھر گیا اور اس کا تذکرہ کیا تو گھر والوں نے رات کو کمروں میں سونے سے انکار کر دیا، یہ رات بہت خوفناک تھی۔‘

اسی طرح ایک دوسرے شہری فیصل احمد نے بتایا کہ وہ بھی اس خبر کی وجہ سے خوف زدہ ہوئے اور انہیں خوف لگا کہ اب یہ گھر گر جائے گا، اس لیے انہوں نے رات کو صحن میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ 

فیصل نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا: ’ہمارے گھر والے بہت خوف کا شکار تھے، سوشل میڈیا پر خبر کے چلنے سے لوگ بھی فون کر کے پوچھ رہے تھے کہ کیا واقعی زلزلہ آںے والا ہے، اس نے ہمیں بے چین کیے رکھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’کوئٹہ شہر میں دن کو بھی گزرتے ہوئے خوف محسوس ہوتا کہ کہیں زلزلہ نہ آ جائے اور یہ بڑی عماری ہمارے اوپر گر نہ جائے۔ ہم ابھی تک اس خوف سے نہیں نکلے ہیں۔‘

دوسری جانب بلوچستان یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر موسمیات ڈاکٹر ثںااللہ پانیزئی نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا: ’جو ٹیکنالوجی اس وقت دنیا میں موجود ہے، اس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زلزلے کی بروقت پیش گوئی کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے، صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ماہرین فالٹ لائن پر انرجی کی تحقیق کر کے اس حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہ زلزلے کا امکان ہے۔‘

کوئٹہ میں 31 مئی 1935 کو ایک تباہ کن زلزلہ آیا تھا جس سے 30 ہزار اور 60 ہزار کے درمیان ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ بالاکوٹ اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں 2005 کے زلزلے سے قبل یہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کا سب سے ہلاکت خیز زلزلہ تھا۔

شاید کوئٹہ کے لوگوں کے ذہنوں میں بزرگوں سے زلزلے کے بارے میں سنی ہوئی کہانیاں ابھی تک موجود ہیں جس کی وجہ سے وہاں زلزلے کی وجہ سے زیادہ افراتفری پھیلی۔ 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان