بچوں کو زلزلے سے کیسے بچایا جائے؟

ماہرین کے مطابق اس خطے میں آنے والے زلزلوں کی وجہ سے پیشگی اقدامات اور بچوں میں اس حوالے سے آگاہی بہت ضروری ہے جو قیمتی جانیں بچا سکتی ہے۔

سات اکتوبر، 2021 کی اس تصویر میں صوبہ بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں زلزلے سے متاثر ہونے والے بچوں کو ایک بوسیدہ مکان میں پناہ لیے دیکھے جا سکتا ہے(اے ایف پی)

’مرنے سے ایک دن پہلے ان کی والدہ سے کہا تھا کہ کل حسن کو دکان پر بھیج دیں تاکہ ان کے لیے عید کے کپڑے خرید سکوں۔ والدہ نے حسن کو بتایا بھی تھا کہ کل دکان پر جا کرعید کے کپڑے اور جوتے لینے ہیں۔ جس پر وہ بہت خوش تھے لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔‘

یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سراج آفریدی کا، جو دس سالہ حسن علی کے چچا ہیں۔

دو روز قبل آنے والے زلزلے کے دوران خوف کی وجہ سے اچانک گرنے سے دس سالہ حسن کی موت واقع ہو گئی۔

سراج آفریدی نے بتایا کہ ’یہ بچہ کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک زلزلہ آ گیا اور ان کی والدہ ایک بچے کو باہر لے جانے کے بعد جب ان کی طرف بڑھیں تو وہ کمرے سے باہر گر گیا لیکن جسم پر زخم کے نشانات نہیں تھے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم نے حسن کو جلدی میں ہسپتال منتقل کیا لیکن وہاں پر ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے اس کی موت واقع ہو چکی ہے۔‘

سراج نے بتایا کہ ’حسن کے والد پہلے ہی بیماری کی وجہ وفات پا چکے ہیں اور ان کا بڑا بھائی بھی ذہنی بیمار ہے اور حسن ہی اپنی والدہ کا سہارا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’چونکہ عید آ رہی ہے تو میں نے دکان سے حسن کی والدہ کو فون کر کے کہا تھا کہ کل حسن کو دکان پر بھیج دیں ہے جس سے حسن بہت خوش ہوئے تھے لیکن عید کے کپڑے خریدنے کی امید پر وہ اس دنیا سے چلے گئے۔‘

سراج الدین کے مطابق ’حسن زلزلے کی وجہ سے بہت زیادہ خوف میں مبتلا ہو گئے تھے جبکہ ان کی والدہ نے ان کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن کمرے میں جانے سے پہلے ہی حسن راستے میں گر گئے تھے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’حسن کے جسم پر بظاہر کوئی زخم نہیں آ تھے لیکن ہسپتال میں موجو ڈاکٹروں نے ہمیں سادہ الفاظ میں یہ بتایا کہ حسن کا دل پھٹ گیا ہے۔‘

دو روز قبل خیبر پختونخوا سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔ امریکی زلزلہ پیما مرکز کے مطابق اس زلزلے کی شدت 6.8 تھی۔

صوبائی ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق زلزلے کے نیتجے میں خیبر پختونخوا میں دس افراد  جان سے گئے اور 50 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔

اس زلزلے کی گہرائی تقریباً 180 کلومیٹر تھی اور ماہرین کے مطابق زلزلے کی گہرائی کی وجہ سے اس سے نقصانات کم رہے ہیں۔

ضلع خیبر کی طرح کا ہی ایک واقعہ ضلع ایبٹ آباد میں بھی پیش آیا جس میں ایک 11 سالہ بچی زلزلے کی خوف کی وجہ سے چل بسی۔

ایبٹ آباد میں وفات پانے والی اس بچی کے چچا عابد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بچی کمرے میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ سوئی ہوئی تھی کہ اسی دوران زلزلہ آ گیا، جس کی شدت سے تمام گھر والے جاگ گئے۔‘

ان کے مطابق ’جوں ہی بچی کمرے سے باہر نکلی تو ڈر، خوف اور آس پاس کے شور شرابے کی وجہ سے بالکل سہم گئی، اسی دوران وہ گر گئی اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی بچی کی موت واقع ہو گئی۔‘

ماہرین کے مطابق اس خطے میں آنے والے زلزلوں کی وجہ سے پیشگی اقدامات اور بچوں میں اس حوالے سے آگاہی بہت ضروری ہے جو قیمتی جانیں بچا سکتی ہے۔

بچوں کو زلزلے کے دوران کیسے محفوظ رکھا جائے؟

ڈاکٹر میر عالم ریسکیو 1122 میں ڈائریکٹر آپریشنز کے عہدے پر کام کرتے ہیں اس ریسکیو کارروائیوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

انہیں نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’بچوں کو زلزلے سے بچانے کا موضوع نہایت اہم ہے اور اس حوالے سے بچوں میں آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جب زلزلہ آئے تو گھر کے بڑوں کو بالکل بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکہ حوصلے سے کام لیتے ہوئے سب کو باہر محفوظ مقام پر نکالنے کا سوچنا چاہیے اور بچوں کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کرنا چاہیے۔‘

ڈاکٹر میر عالم کا مزید کہنا ہے کہ ’زلزلے کے دوران بچوں کو اٹھائے رکھیں اور ان کے ساتھ مسلسل باتیں کرتے رہیں تاکہ بچوں کے ذہن کو باتوں میں مصروف رکھ کے انہیں زلزلے کی شدت اور ارد گرد کے شور شرابے سے بچایا جا سکے۔ اس طرح بچے کو زیادہ سوچنے کا وقت نہیں ملے گا کیوں کہ گھر کے بڑے جب باتیں کر رہے ہوں گے تو بچہ زلزلے اور شورشرابے کو نوٹ نہیں کر سکے گا۔‘

ڈاکٹر میر عالم کے مطابق ’زلزلے کے دوران چھت گرنے یا دیوار گرنے سے کم اور خوف اور بھگدڑ سے زیادہ لوگ جان سے جاتے یا زخمی ہوتے ہیں۔ اہم یہی ہے کہ گھر کے بڑے جب حوصلہ رکھیں گے تب ہی وہ بہتر طریقے سے بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر سکیں گے۔‘

ڈاکٹر میر عالم نے بتایا کہ ’بچوں میں بعض کم حساس اور بعض زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے ذہن اور حساسیت کے مطابق ان سے خوف اور ڈر کی باتیں نہیں کرنی چاہییں بلکہ زلزلے اور آفات کے بارے میں ان کا خوف ختم کرنا چاہیے۔‘

بچوں کو کس قسم کی آگاہی دینے کی ضرورت ہے؟

ڈاکٹر میر عالم کہتے ہیں کہ ’پرائمری سے ہی تعلیمی اداروں میں فرضی مشقیں کرانے کی ضرورت ہیں کہ کس طرح زلزلے جیسی آفت میں خود کو محفوظ رکھا جائے اور حواس باختہ (پینیک) ہونے سے بچا جا سکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تعلیمی اداروں میں بچوں کو یہ بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ زلزلہ ایک سائنسی عمل ہے اور زلزلے آنے کی وجہ کیا ہے۔ اسی طرح بچوں کے دلوں سے خوف اور ڈر ختم کیا جا سکتا ہے اور زلزلے کے دوران انہیں پینیک سے بچایا جا سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر میر عالم کے مطابق ’اچانک زلزلے کی اطلاع بچے کو دینا اور ان کو الرٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بعض حساس بچے اچانک خوف اور ڈر کی وجہ سے ’سڈن ہارٹ اریسٹ‘ یعنی اچانک دل کی حرکت بند ہونے جیسے عوامل کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر میر عالم نے ایمرجنسی صورت حال میں عمارتوں سے نکلنے کے حوالے سے بھی بچوں کو آگاہی دینے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی ادارے میں یہ ایک لازمی جز ہونا چاہیے اور اس حوالے سے بھی بچوں کو فرضی مشقیں کرانے کی ضرورت ہے۔‘

ماہرین کے مطابق پاکستان میں اسلام آباد سے لے کر خیبر پختونخوا کے علاقے اور افغانستان تک کا خطہ زلزلے کی فالٹ لائنز پر واقع ہے۔

فالٹ لائنز زمین کے نیچے موجود بڑی چٹانوں کے درمیان کٹی ہوئی جگہ کو کہتے ہیں اور انہی فالٹ لائن یعنی خالی جگہ کی وجہ سے یہ چٹانیں حرکت کرتی ہیں جس سے زلزلے آتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات