پنجاب کے شہر جہلم کے علاقے للہ بھروانہ میں بدھ کو ’پسند کی شادی‘ کرنے پر ایک خاتون سنیعہ رانی اور ان کے شوہر رحمٰن رسول کو مبینہ طور پر قتل کر دیا گیا۔
تھانہ للہ جہلم پولیس نے بتایا کہ رحمٰن رسول کی والدہ سکینہ بی بی کی مدعیت میں سنیعہ کے بھائی ظفران اور اس کے ساتھیوں کے خلاف بدھ کو مقدمہ درج کر کے کارروائی شروع کر دی۔
ترجمان جہلم پولیس مدثر خان کے مطابق ابھی تک ملزم گرفتار نہیں ہوسکے تاہم گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
تھانہ للہ میں ظفران نے 25 مئی کو ایف آئی آر درج کرائی تھی کہ ’رات گئے ان کی 22 سالہ ہمشیرہ گھر سے غائب ہو گئیں۔ تلاش کرنے پرانہیں ہمسائیوں نے بتایا کہ انہیں رحمٰن رسول اور ایک خاتون موٹر سائیکل پر بٹھا کر لے جا رہے تھے۔‘
ایف آئی آر میں استدعا کی گئی کہ ان کی ’ہمیشرہ کو اغوا کیا گیا ہے اغوا کرنے والوں کو گرفتار کر کے ان کی ہمشیرہ کو بازیاب کرایا جائے۔‘
تاہم پولیس کے مطابق: ’یہ ایف آئی آر لڑکی کے مرضی سے شادی کرنے کے بیان پر خارج کر دی گئی تھی۔‘
رحمٰن رسول کی والدہ سکینہ بی بی کی درخواست پر دائر مقدمے میں کہا گیا کہ ان کے بیٹے ’رحمٰن رسول نے پانچ ماہ قبل سنیعہ رانی سے پسند کی شادی کی، جس پر لڑکی کے ورثا نے ان کے بیٹے کے خلاف اغوا کا جھوٹا مقدمہ بھی درج کرایا۔‘
18 اکتوبر، 2023 کو درج کی جانے والی ایف آئی آر کے مطابق: ’سنیعہ کے بھائی ظفران نے اپنی بہن کے ذریعے انہیں صلح کے لیے ڈیرے پر بلایا۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انہیں مارنے کی کوشش کی جس پر وہ قریبی مسجد میں جا کر چھپ گئے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق: ’رحمٰن رسول نے اپنے گھر والوں کو وٹس ایپ پر میسج کیا کہ سنیعہ کے بھائی اور رشتہ دار انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں، وہ مسجد میں موجود ہیں انہیں بچایا جائے۔‘
سکینہ بی بی نے ایف آئی آر میں لکھوایا کہ ’جب وہ اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ مسجد جا رہے تھے تو انہوں نے راستے میں ظفران کو مسلح اپنے تین ساتھیوں سمیت موٹروے کی طرف جاتے دیکھا۔ جب وہ مسجد پہنچے تو ان کے بیٹے رحمٰن رسول اور بہو سنیعہ رانی خون میں لت پت مسجد کے صحن میں مردہ پڑے تھے۔
’وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ انہیں ظفران نے تین ساتھیوں کی مدد سے فائرنگ کر کے قتل کردیا۔‘
ایف آئی آر میں درخواست کی گئی کہ اس دوہرے قتل پر ظفران اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
ترجمان جہلم پولیس مدثر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پولیس واقعے کی اطلاع ملتے ہی فوری موقعے پر پہنچی اور متعلقہ تھانے میں مقدمہ درج کر کے کارروائی شروع کر دی۔‘
’ابھی تک ظفران یا ان کا کوئی بھی ساتھی گرفتار نہیں ہوا، تاہم چھاپے مارے جا رہے ہیں، جلد انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قانون دان آصف شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں گھر والوں کی مرضی کے بغیر پسند کی شادی کو غیرت کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ اسی لیے اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔‘
’قانونی اور اخلاقی طور پر ہر عاقل وبالغ لڑکے اور لڑکی کو مرضی کے مطابق ہم سفر چننے کی اجازت ہے لیکن کئی لوگ نوجوانوں کی خواہشات کا احترام کرنے کی بجائے اسے انا اور غیرت کا مسئلہ بنا کر جان لینے پر اتر آتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس طرح کے مقدمات میں زیادہ تر مدعی مقتولین کے رشتہ دار ہی ہوتے ہیں اور وہ مارنے والے اپنے رشتہ داروں کو معاف کر دیتے ہیں اور مقدمہ درج ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی صلح ہو جاتی ہے۔ جس سے مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں۔‘
آصف شہزاد کے مطابق ’یہ سنجیدہ معاملہ ہے اس طرح کے مقدمات میں پولیس کو خود مدعی بننا چاہیے اور ایسے کیسوں کی تفتیش شہادتوں کی بنیاد پرملزم کے اقبال جرم کو یقینی بنا کر کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے اور عدالتوں کو ان کیسوں کا تیز ٹرائل کرنا چاہیے تاکہ مجرموں کو سزا ملنے سے لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا ہو اور اس طرح کے جرائم سے بے گناہوں کا خون کرنے سے باز رہیں۔‘
پنجاب پولیس کے ریکارڈ کے مطابق پنجاب کے مختلف شہروں میں گذشتہ 10 سالوں میں 2600 سے زائد افراد ’غیرت‘ کے نام پر قتل ہوئے۔
گذشتہ سال 176 لوگ قتل ہوئے جبکہ ایسے مقدمت میں ملزمان کو سزاؤں کی شرح صرف دو فیصد ہے۔