غزہ میں بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہ اور ایک وقت کا کھانا ’نعمت‘ ہے

دو میٹر کی ایک چھوٹی سے جگہ پر عامر نے بے گھر رضاکاروں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا باورچی خانہ قائم کیا ہے جہاں انہوں نے جنگ کے دوران مختلف غذائی اجزا کے ساتھ گرم کھانا تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

غزہ شہر کے جنوب میں بے گھر افراد کی پناہ گاہ کے قریب عامر نے ان لوگوں کے لیے کھانا بنانے کے لیے بڑا چولہا زمین پر رکھا جن کو اسرائیل نے دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے انخلا کے حکم پر عمل نہ کیا تو ان کے گھروں پر بمباری کی جائے گی۔ اب ان لوگوں کے پاس بہت کم خوراک بچی ہے۔

عامر نے کھانا پکانے کا سامان تیار کیا اور چاول بنانا شروع کر دیے۔ وہ رضاکار جن میں سے زیادہ تر بے گھر ہو گئے تھے، فوری طور پر ان کے ارد گرد جمع ہو گئے اور لوگوں تک پہنچانے کے لیے کھانے پینے کی اشیا کو ڈبوں میں بند کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے بڑے بڑے برتن آگ پر چڑھا دیے۔

غزہ کا مختصر دن

دو میٹر کی ایک چھوٹی سے جگہ پر عامر نے بے گھر رضاکاروں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا باورچی خانہ قائم کیا ہے۔ انہوں نے جنگ کے دوران اس باورچی خانے میں مختلف غذائی اجزا کے ساتھ گرم کھانا تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جسے بے گھر افراد میں مفت تقسیم کیا جائے گا جن کی تعداد 11 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ محفوظ شہر کے قابل ذکر مکین ہیں۔

ہر روز صبح 11 بجے عامر اور بے گھر لوگ کھانا تیار کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی علاقے میں کھانا بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’صبح کے وقت ماحول نسبتاً پرسکون ہوتا ہے اور میں اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں اور میں آپ کو سچ بتاتا ہوں کہ غزہ میں دن مختصر ہو گیا ہے۔ یہ دس بجے شروع ہوتا ہے اور شام پانچ بجے سے پہلے ختم ہو جاتا ہے۔‘

اس کے بعد تمام علاقے لوگوں سے خالی ہو جاتے ہیں، جیسے یہ کوئی بھوتوں کا شہر ہو۔

محفوظ علاقہ

عامر صرف جنوبی غزہ میں بے گھر افراد کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں اسرائیل کی جانب سے بے گھر افراد کے لیے مخصوص محفوظ علاقہ ہے۔ یہ زیادہ پسماندہ، غریب اور زیادہ بھیڑ بھاڑ والا علاقہ ہے۔

درحقیقت ہزاروں غریب بے گھر افراد جو غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں عامر کے باورچی خانے کا رخ کرتے ہیں جو ان کے لیے ایک نعمت کی طرح ہے۔

عامر تین بڑے برتنوں میں کھانا بناتے ہیں لیکن وہ ان کے طلبہ کی بڑی تعداد کے لیے کافی نہیں ہیں۔ تقریباً ایک ہزار بے گھر لوگ ان کے سامنے جمع ہوتے ہیں، اس امید پر کہ انہیں کھانا ملے گا۔ ان میں سے کچھ کو مشکل سے کھانے کا ایک حصہ ہی ملتا ہے۔

عامر کا کہنا ہے کہ انہیں روزانہ بڑی تعداد میں بے گھر افراد کی جانب سے اپیلیں موصول ہوتی ہیں جنہیں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر عائد مکمل پابندی کی وجہ سے کھانے پینے کو کچھ نہیں مل رہا اور انہیں خوراک کی اشد ضرورت ہے۔ غزہ کے محاصرے نے لوگوں کے لیے پہلے مشکل معاشی حالات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

جنگ سے پہلے اور بعد کی صورت حال

درحقیقت جنگ سے پہلے غزہ کی پٹی کی آبادی کے حالات بہت مشکل تھے۔ غزہ میں تقریباً 12 لاکھ لوگ رہتے ہیں جو خط غربت پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ کھانے پینے کی روزمرہ کی ضروریات پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ جو لوگ غذائی عدم تحفظ کا شکار تھے ان میں سے یہ لوگ آبادی کا 65 فیصد تھے۔

اس کے بعد رواں سال کے آغاز میں اقوام متحدہ کی رابطہ کار برائے انسانی امور لین ہسٹنگز نے غزہ کے مکینوں کے لیے غذائی عدم تحفظ کی سنگینی سے خبردار کرتے ہوئے وضاحت کی کہ غزہ کی پٹی میں تقریباً 12 لاکھ افراد ایسے ہیں جنہیں اس وقت فوری طور پر امداد کی ضرورت ہے۔

جنگ کے دوران جو 16ویں دن بھی جاری ہے، غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں میں۔ غذائی عدم تحفظ کی شرح بھی بڑھی ہے کیوں کہ غزہ کو خوراک کی فراہمی بند ہو چکی ہے اور خوراک کی عدم دستیابی کی شرح 89 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

زیادہ تر بے گھر افراد کو دن میں ایک وقت کا کھانا بھی نہیں مل رہا۔ وہ کھانے کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے یا عامر کے کچن پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں لیکن یہ خوراک بہت تھوڑی ہے۔

اقوام متحدہ کی اپیل

عامر، غزہ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کے مشکل حالات سے واقف ہیں۔ اس لیے وہ ہر روز کھانے کی ایک ڈش تیار کرتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کھانے میں اہم غذائی اجزا شامل ہوں تاکہ غریب خاندانوں میں غذا کی کمی کو پورا کیا جاسکے جو دن میں صرف ایک بار کھانا کھاتے ہیں۔

عامر، اقوام متحدہ اور اس کی خصوصی تنظیموں کی جانب سے کی گئی فوری اور ہنگامی اپیل کے جواب میں خیراتی کچن چلا رہے ہیں تاکہ غزہ میں بڑھتے ہوئے تشدد اور تنازعے کی وجہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو ہنگامی بنیادوں پر کھانا دیا جا سکے۔

ہسٹنگز کا کہنا ہے کہ غزہ میں خوراک کی فراہمی پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے کیوں کہ خونی اور تباہ کن لڑائی جاری ہے۔

ہسٹنگر نے مزید کہا کہ ’یو این آر ڈبلیو اے میں ہمارے پارٹنر ان چھ لاکھ لوگوں کو مشکل سے ایک وقت کا کھانا فراہم کر رہے ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کی عمارتوں میں پناہ لے رکھی ہے۔

’ بین الاقوامی برادری کی جانب سے مسلسل مدد کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ غزہ تک پہنچنے والی امداد بہت کم ہے۔ کسی بھی صورت میں تشدد میں اضافے سے پہلے کی طرح۔ کئی سال کے محاصرے اور پابندیوں نے پٹی میں غذائی عدم تحفظ کو ایک سنگین مسئلے میں تبدیل کر دیا ہے۔‘

مشکل حالات

یو این آر ڈبلیو اے، جو بے گھر ہونے والوں کو امداد فراہم کرنے والا پہلا ادارہ ہے، میں صورت حال مشکل دکھائی دیتی ہے، کیوں کہ اسے اسرائیلی دھمکیوں کی وجہ سے پناہ گاہوں میں تبدیل کیے گئے پانچ سکولوں کے لیے اپنا تحفظ ختم کرنا پڑا۔ اس بات کا انکشاف ادارے کے ملازمین کی یونین کے سیکریٹری محمد شویدہ نے کیا ہے۔

شویدہ کہتے ہیں کہ 'اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں بے گھر افراد کے لیے قائم پناہ گاہوں کو خالی کروانے کے لیے کہا لیکن ان عمارتوں میں لاکھوں بے گھر افراد موجود ہیں اور یو این آر ڈبلیو اے اب ان پانچ مراکز کو کوئی خدمات فراہم نہیں کرتا جنہیں خالی نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا بین الاقوامی برادری کو ان کی حفاظت کرنی ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم دوسری جانب یو این آر ڈبلیو اے میں رابطے اور میڈیا کے شعبے کی ڈائریکٹر جولیٹ ٹوما اس بات سے انکار کرتی ہیں کہ انہوں نے کسی بھی سکول کو خالی کرنے کرنے کا کہنا لیکن انہوں نے تصدیق کی کہ انہوں نے مقامی ملازمین کے ذریعے مقامی برادریوں کو کچھ سکولوں کے خطرے سے دوچار ہونے کے امکان کے بارے میں آگاہ کیا تھا اور یہ اس لیے کیا گیا تاکہ مقامی حکام ان کی معلومات کی بنیاد پر آزادانہ طور پر اپنا فیصلہ کر سکیں۔

قحط کا خدشہ

بہرحال جب یو این آر ڈبلیو اے نے غزہ میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے پناہ گاہوں کے لیے اپنی امداد بند کر دی تو عامر نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا اور دن میں ایک بار بھی غریبوں اور ان کے بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے وہاں اپنا کچن کھولنے کا فیصلہ کیا۔

اس کچن کے سامنے کھڑے شہری اکرم عابد نے اپنی حالت کے بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا کیوں کہ وہ شرمندگی سے بچنے کے لیے میڈیا سے دور رہ کھانا لینے ہی والے تھے لیکن ان کی حوصلہ افزائی کی گئی اور کہا گیا کہ ’یہ بے گھر افراد عزت کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے لیکن غربت اور جنگ نے انہیں اپنے بچوں کے لیے خوراک تلاش کرنے پر مجبور کر دیا۔‘

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر سمیر عبدالجواد کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں صورت حال ایسے وقت تیزی سے بگڑ رہی ہے جب سٹورز میں صرف چار دن خوراک بچی ہے اور اگر غزہ تک خوراک نہ پہنچی تو قحط اور سانحات رونما ہوں گی اور ہم اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کر پائیں گے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ عریبیہ

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا