بولنگ میں انگلیوں سے زیادہ زبان چلانے والے بشن بیدی نہیں رہے

بشن سنگھ بیدی کے پاکستانی کھلاڑیوں اور میڈیا سے اتنے گہرے تعلقات تھے کہ انڈین میڈیا نے انہیں پاکستانی ایجنٹ کہنا شروع کر دیا تھا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انتخاب عالم نے بشن سنگھ بیدی کی 23 اکتوبر 2023 کو ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے (اے ایف پی)

’ایک لگائے گا، دو لگائے گا اور کتنی لگائے گا۔‘ یہ مشہور الفاظ تھے ٹھیٹھ پنجابی میں انڈین سپینر بشن سنگھ بیدی کے، جب 1978 میں کراچی ٹیسٹ کے آخری دن کے آخری گھنٹے میں پاکستان کو انڈیا سے جیت کے لیے 164 رنز درکار تھے۔

یہ ہدف اس وقت کی کرکٹ کے اعتبار سے بہت مشکل تھا۔

پاکستان نے میچ کو جیتنے کے لیے ماجد خان اور آصف اقبال کو اوپنر بھیجا۔ ماجد تو جلدی آؤٹ ہوگئے لیکن جاوید میاں داد اور آصف اقبال نے میچ کو جیت کے قریب پہنچا دیا تھا۔ ایسے میں انڈین ٹیم کے کپتان بشن سنگھ بیدی مطمئن تھے کہ پاکستان سکور نہیں کرسکے گا۔ اس کی وجہ شاید اس دور میں کرکٹ کی سست روی تھی۔

ایک موقعے پر آصف اقبال بھی آؤٹ ہوگئے اور پانچ اوورز میں پاکستان کو 50 رنز درکار تھے۔ عمران خان بیٹنگ کرنے آئے تو بیدی خود بولنگ کرنے آگئے۔ عمران نے آتے ہی بیدی کو دو چھکے رسید کیے تو گواسکر نے بھاگتے ہوئے کہا۔ ’کپتان کیا کر رہے ہو۔ ہم ہار جائیں گے۔‘ بیدی نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا: ’ڈر نہ پتر۔ کنی مارے گا۔ کدر تو پھڑیا جائے گا۔‘ 

بیدی تو رنز نہ روک سکے لیکن عمران نے میچ جیت پر ختم ہی ختم کیا۔

ہر وقت ہنسنے والے انڈین کپتان بشن سنگھ بیدی کا کپتانی کا کیریئر اس ٹیسٹ میچ کے ساتھ ختم ہوگیا۔ انہوں نے اس کے بعد باقی چھ ٹیسٹ میچ سنیل گواسکر کی قیادت میں کھیلے۔

منفرد کھلاڑی، منفرد شخصیت

بشن سنگھ بیدی دنیائے کرکٹ کے منفرد کھلاڑی تھے۔ ان کا حلیہ، بات چیت کا انداز، سر پر سکھوں کی مخصوص پگڑی اور چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ ان کی پہچان تھی۔ وہ بولنگ کرتے ہوئے جتنی انگلیاں چلاتے تھے اس سے زیادہ زبان چلتی تھی۔ اکثر وہ گیند کرنے کے بعد مخالف بلے باز پر طنز کرتے تھے لیکن اس طنز میں مٹھاس اور شگفتگی ہوتی تھی۔

وہ کبھی بھی مخالف ٹیم سے نفرت کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ گیند کرنے کے بعد اگر دیکھتے کہ بلے باز غلطی کر رہا ہے تو اسے ہنستے ہوئے مشورے بھی دے دیتے تھے۔

انڈیا میں ’اکیلا پاکستانی‘

بشن سنگھ بیدی جس قدر خوش گفتار تھے، اتنے ہی کھلے دل کے مالک بھی تھے۔ وہ ہمیشہ پاکستان انڈیا کرکٹ کے دلدادہ رہے۔ انہیں پاکستان خاص طور سے پنجاب سے اتنی محبت تھی کہ خود کو انڈیا میں ’اکیلا پاکستانی‘ کہتے تھے۔

پاکستان کے سابق کرکٹرز سرفراز نواز اور مشتاق محمد سے ان کی بہت دوستی تھی کیونکہ تینوں نے برسوں نارتھمپٹن شائر میں ایک ساتھ کاؤنٹی کرکٹ کھیلی تھی۔ نارتھمپٹن شائر نے جب پہلی دفعہ 1976 میں جلیٹ کپ کا فائنل جیتا تو اس جیت کا سہرا ان تینوں کے سر رہا تھا۔

بیدی کے پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ ہمیشہ بہترین تعلقات رہے۔ وہ دوستوں کے دوست تھے اور انہیں ہمیشہ یاد رکھتے تھے۔ چند سال قبل جب وہ سکھوں کی عبادت گاہ کرتارپور آئے تو خاص طور سے انتخاب عالم اور شفقت رانا کو فون کرکے بلایا۔ تینوں دوستوں نے گھنٹوں پرانی یادیں تازہ کیں۔ انتخاب عالم نے ان کے لیے گانے بھی گائے۔

حب الوطنی پر شک

بشن سنگھ بیدی کے پاکستانی کھلاڑیوں اور میڈیا سے اتنے گہرے تعلقات تھے کہ انڈین میڈیا نے انہیں ’پاکستانی ایجنٹ‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔ بشن سنگھ بیدی ان الزامات سے کبھی نہیں گھبرائے بلکہ ہمیشہ پاکستان انڈیا کرکٹ کو سب سے بڑی کرکٹ قرار دیا۔

وہ پاکستان کے ساتھ سیریز کو کرکٹ کی معراج سمجھتے تھے اور جب دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ بند ہوگئی تو اس کو ایک بڑا نقصان قرار دیا۔

پاکستانی بولرز کو مشورے

سابق ٹیسٹ سپنر اقبال قاسم بتاتے ہیں کہ بیدی صاحب انتہائی خوش مزاج اور خوش گفتار شخص تھے۔ وہ بلاجھجک ہر ایک سے گفتگو شروع کر دیتے تھے، جس میں اپنائیت ہوتی تھی۔

1987 کے دورے پر بنگلور کے مشہور زمانہ ٹیسٹ کے دوران ہماری ان سے ملاقات ہوئی۔ ان دنوں ٹیسٹ میچ کا چوتھا دن آرام کا ہوتا تھا۔ اس ٹیسٹ کے دوران ایک عشائیہ کا اہتمام کیا گیا جس کے لیے میں اور توصیف احمد وقت سے پہلے ہوٹل پہنچ گئے۔ اتفاق سے بیدی صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم نے ان سے کہا کہ آج تو آپ کے شاگرد منندر سنگھ نے کمال کی بولنگ کی ہے۔ بیدی صاحب اپنے مخصوص انداز میں زور سے پنجابی میں بولے: ’کیا خاک بولنگ کی ہے۔ جب وکٹ پر اتنا سپن ہے تو زیادہ سپن کرنے کی کیا ضرورت ہے جس سے گیند وکٹ سے دو فٹ باہر جا رہی ہے۔‘

ہم نے ان کی یہ بات گرہ میں باندھ لی اور دوسرے دن اسی طرح بولنگ کی اور انڈیا کی بیٹنگ کا صفایا کر دیا۔ بعد میں یہ خبر انڈین میڈیا تک پہنچ گئی اور بیدی صاحب پر تنقید ہونے لگی کہ پاکستانی بولرز کو مشورے دے رہے ہیں۔ اس پر بیدی صاحب نے کھڑکتا ہوا جواب دیا: ’یہاں والوں کو برسوں سے سمجھا رہا ہوں لیکن وہ سمجھ نہیں رہے اب پاکستانی سیکھ رہے ہیں تو یہ ان کی مہربانی ہے۔‘

بولنگ یا اعضا کی شاعری

بشن سنگھ بیدی انڈین کرکٹ میں ہمیشہ منفرد رہے۔ وہ جس انداز سے بولنگ کرتے تھے، مبصرین اسے بولنگ سے زیادہ ایک رقص کی کیفیت سمجھتے تھے۔  وہ جس طرح بائیں ہاتھ کو سر کے اوپر حرکت دیتے ہوئے آہستہ آہستہ وکٹ پر پہنچتے تھے اور پھر کسی ماہر رقاص کی طرح گیند پھینکتے تھے اس کا منظر قابل دید ہوتا تھا۔ وہ انڈیا کے پہلے سکھ کھلاڑی تھے جنہوں نے روایتی پگڑی کے ساتھ کرکٹ کھیلی۔

پیدائشی بولر

اگر یہ کہا جائے کہ وہ پیدائشی بولر تھے تو غلط نہ ہوگا۔ امرتسر میں 1946 میں پیدا ہونے والے بیدی 20 سال کی عمر میں ہی انڈین ٹیم میں منتخب ہوگئے تھے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف 1966 میں کیریئر کا آغاز کیا اور پھر ابتدا سے ٹیم کے بنیادی رکن بن گئے۔ ان کی بولنگ کی بدولت انڈیا نے 1971 میں پہلی دفعہ ویسٹ انڈیز کو اس کے گھر میں شکست دے کر سیریز جیتی۔

اسی سال ان کی شاندار بولنگ کے باعث انڈیا نے پہلی دفعہ اوول میں انگلینڈ کے خلاف بھی ٹیسٹ میچ جیتا۔

بیدی کو 1975 میں منصور علی خان پٹودی کے بعد نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں کپتان مقرر کیا گیا۔ کپتانی کا یہ سلسلہ پاکستان کے خلاف 1978 سیریز تک جاری رہا۔

بیدی نے 22 میچوں میں انڈیا کی قیادت کی۔ وہ چھ میچ جیت سکے جن میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 1976 میں پورٹ آف سپین کا میچ بھی شامل ہے، جس میں انڈیا نے چوتھی اننگز میں 406 رنز کا ہدف عبور کرکے ریکارڈ قائم کیا تھا۔ یہ ریکارڈ بعد میں آسٹریلیا نے توڑ دیا۔

بیدی نے 77 ٹیسٹ میچوں میں 266 کھلاڑی آؤٹ کیے۔ وہ انگلینڈ کے خلاف 1979 میں اوول میں آخری دفعہ کھیل کر ریٹائر ہوگئے۔

انہوں نے چھ سال انگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ بھی کھیلی اور مجموعی طور پر اپنے کیریئر میں 1560 وکٹیں حاصل کیں۔

ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کافی عرصہ کرکٹ سے لاتعلق رہے تاہم 1990 میں وہ انڈیا کے پہلے پروفیشنل کوچ بن گئے، جب انہوں نے پنجاب کی ٹیم کی کوچنگ کی۔

بشن سنگھ بیدی ایک منکسرالمزاج اور زندہ دل شخص تھے۔ سادہ طبیعت اور کھری گفتگو ان کا خاصہ تھا۔ وہ جس بات پر خوش ہوتے کھل کر قہقہہ لگاتے تھے اور جو ناگوار گزرے اس پر کھل کر اختلاف کرتے تھے۔

پاکستان انڈیا کرکٹ کی معطلی پر وہ بے باک انداز میں تنقید کرتے تھے۔ انہیں انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) سے شدید نفرت تھی۔ وہ اسے کرکٹ کی تباہی کہتے تھے۔ ان کا ایمان تھا کہ ایک طویل دورانیے کی روایتی انداز کی ہی کرکٹ ہے۔

گذشتہ روز طویل علالت کے بعد 77 سال کی عمر میں ان کی موت پر دنیائے کرکٹ نے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ آئی سی سی، بی سی سی آئی، پی سی بی کے علاوہ انڈین وزیراعظم، بالی ووڈ اور سابق و حالیہ کرکٹرز نے گہرے غم کا اظہار کیا ہے۔

بشن سنگھ بیدی ایک شخص نہیں بلکہ عہد تھے جنہوں نے بائیں ہاتھ کی بولنگ کو عروج عطا کیا۔ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں سپنرز کا کردار منوایا اور  کرکٹ کو رونق بخشی۔ بیدی کی بولنگ اب کتابوں اور تصویروں میں ہی مل سکے گی لیکن ان کی موت سے سپن بولنگ کا ایک عہد ختم ہوگیا۔

بیدی کے پسماندگان میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، جو ان کی دو شادیوں سے ہیں۔

ان کے چھوٹے بیٹے انگد کی شادی اداکارہ اور ماڈل نیہا دھوپیا سے ہوئی ہے، جنہوں نے 2002 میں مس انڈیا کا تاج جیتا تھا۔

 پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انتخاب عالم نے ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’میرے ان کے ساتھ بہت خوشگوار اور دوستانہ تعلقات تھے، وہ ایک عظیم سپنر اور انسان تھے۔‘

یہ بالعموم کرکٹ اور خاص طور پر پاک انڈیا کرکٹ کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ