پاکستان کی آخری امید، جنوبی افریقہ کے خلاف جیت

جنوبی افریقہ کے خلاف اس ’مارو یا مرجاؤ‘کے مترادف میچ میں پاکستانی ٹیم بوکھلاہٹ اور تردد کا شکار ہے کہ کس بلے باز کو کھلایا جائے اور کسے باہر کریں جبکہ بولنگ اٹیک بھی ناکام ثابت ہو رہا ہے۔

20 اکتوبر 2023 کو بنگلورو کے ایم چناسوامی سٹیڈیم میں آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ ون ڈے انٹرنیشنل میچ کے دوران فیلڈنگ کرتے ہوئے پاکستان کے کپتان بابر اعظم کا ایک انداز (ستیش بابو / اے ایف پی)

رواں آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ میں جس ٹیم نے ٹورنامنٹ کو دلچسپ اور قابل دید بنا رکھا ہے، وہ صرف جنوبی افریقہ کی ٹیم ہی ہے، جس کی جارحانہ بلے بازی نے شائقین کرکٹ کے دل موہ لیے ہیں۔

اس کے برعکس پاکستانی ٹیم جو ورلڈ کپ میں چیمپیئن بننے کے لیے مضبوط امیدواروں میں شامل تھی، اپنی بدترین کارکردگی سے اب اس مقام پر پہنچ گئی ہے، جہاں کھیل سے زیادہ دعاؤں کی درخواستیں کی جا رہی ہیں۔

اگرچہ پاکستانی ٹیم کی روایت رہی ہے کہ وہ گذشتہ کئی ورلڈ کپ سے ایسی ہی مشکلات کا دوچار رہتی ہے لیکن موجودہ ورلڈ کپ سے قبل طویل عرصہ تک آئی سی سی رینکنگ میں اولین پوزیشن اور شہرہ آفاق کھلاڑیوں کے باعث سب کو توقع تھی کہ ٹیم عمدہ کارکردگی دکھائے گی اور سیمی فائنل کے مرحلے تک باآسانی پہنچ جائے گی لیکن ساری توقعات اب تک غلط ثابت ہوئی ہیں۔

پاکستانی ٹیم پانچ میں سے تین اہم میچ ہار کر اب پوائنٹس ٹیبل پر کسی ایک ٹیم کی بدترین کارکردگی کی منتظر ہے کہ اسے کچھ رسائی ہوسکے۔ اس کی حالت اس ڈوبتی ہوئی کشتی جیسی ہے، جس کے پتوار اس کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں اور طوفانی موجیں اس پر چڑھ دوڑنے کو تیار ہیں۔

پاکستانی ٹیم جمعے کو جنوبی افریقہ کے خلاف اپنا اہم اور شاید آخری میچ کھیل رہی ہے کیونکہ اس میچ میں شکست کے بعد اس کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے راستے کلی طور پر مسدود ہوجائیں گے اور جیت اس کو دوبارہ زندہ کردے گی۔

پاکستان جو 1992 کے ورلڈ کپ کا فاتح ہے اور 1999 ورلڈ کپ کا فائنلسٹ ہے، اس کے لیے یہ آخری موقع بھی آسٹریلیا کے ساتھ برابری کی بنیاد پر ہے، جو اپنے دو اہم میچ ہار کر پاکستان کے لیے کچھ راستہ بنا چکا ہے لیکن اسے یہ اطمینان ہے کہ اسے صرف نیوزی لینڈ کے ساتھ کچھ مشکل درپیش آسکتی ہے ورنہ انگلینڈ اور باقی ٹیمیں اس کے لیے آسان تر ہیں۔

جنوبی افریقہ، جس کی اب تک کی کارکردگی نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ اس نے بھی نیدرلینڈز سے غیر متوقع شکست کا منہ دیکھا ہے۔ اب اسے پاکستان سے اسی پچ پر مقابلہ کرنا ہے، جس پر افغانستان کے سپنرز نے پاکستان کے ورلڈ کلاس بلے بازوں کو چاروں خانے چت کر دیا تھا اور بولنگ کی کمر توڑ دی تھی۔

پاکستانی ٹیم ’اگر مگر‘ کا شکار

افغانستان سے ہار نے پاکستانی ٹیم کا مورال بہت زیادہ بے ترتیب کردیا ہے۔ ایک نویں درجے کی ٹیم کے خلاف 282 رنز کا ناکام دفاع ٹیم کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گیا ہے۔

پاکستان کو جن بولرز پر ناز تھا وہ بے بی ٹیم کے خلاف خود بے بی بن گئے اور اپنی لائن لینتھ بھول گئے جبکہ بلے بازوں نے اپنی بیٹنگ میں مجموعی سکور کی بجائے انفرادی سکور پر توجہ دی، جس سے بڑا سکور نہ بن سکا۔

اب جنوبی افریقہ کے خلاف اس ’مارو یا مرجاؤ‘کے مترادف میچ میں ٹیم بوکھلاہٹ اور تردد کا شکار ہے کہ کس بلے باز کو کھلایا جائے اور کسے باہر کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ناقدین امام الحق پر بہت تنقید کر رہے ہیں، جو رنز تو کرتے ہیں لیکن سست روی سے جس سے بیٹنگ پر بوجھ پڑتا ہے۔

اوپنر فخر زمان فٹ ہو چکے ہیں اور ممکنہ طور پر ان کی جگہ شامل کیے جائیں۔ پاکستان کی بقیہ بیٹنگ شاید وہی رہے البتہ سلمان علی آغا کو سعود شکیل کی جگہ شامل کیا جا سکتا ہے، تاہم کپتان کا ووٹ فی الوقت سعود کے ساتھ ہے۔

بولنگ میں ابھی تک فیصلہ نہیں ہوسکا کہ ایک مزید سپنر شامل کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو محمد نواز کو حارث رؤف کی جگہ شامل کیا جاسکتا ہے لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا قابل فخر فاسٹ بولنگ اٹیک بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ کوئی بھی بولر کسی بھی میچ میں وننگ بولنگ نہ کرسکا اور نہ حریف ٹیم کو پریشان کرسکا ہے۔

پاکستان کے لیے مشکل بات یہ ہے کہ حسن علی بخار میں مبتلا ہیں اور ان کی جگہ وسیم جونیئر کو شامل کیا گیا ہے۔ اگر نواز کو کھلانا ضروری ہوا تو اسامہ میر کو ڈراپ کیا جاسکتا ہے۔

خود اعتماد جنوبی افریقہ

جنوبی افریقہ کی ٹیم نے جس طرح گذشتہ میچ میں بنگلہ دیش کو شکست دی ہے، اس نے ان کا اعتماد بہت بڑھا دیا ہے۔

بنگلہ دیش کے سپنرز کے خلاف جس طرح جنوبی افریقہ کے بلے بازوں نے بیٹنگ کی اس سے سارے اندازے غلط ثابت ہوگئے کہ سپنرز انہیں تنگ کرسکتے ہیں۔ اگرچہ وہ چنئی کی پچ نہیں تھی لیکن اگر ان کی بلے بازی میں ویسا ہی جارحانہ پن ہوا تو کچھ بعید نہیں کہ پاکستانی سپنرز کو بھی وہی سب کچھ دیکھنے کو ملے۔

کوئنٹن ڈی کاک 407 رنز بناکر سر فہرست ہیں جبکہ ہنری کلاسن 150 کے سٹرائیک ریٹ سے سب کے لیے حقیقی خطرہ بن چکے ہیں۔ ایڈن مارکرم اور جانسن بھی بہت اچھی فارم میں ہیں۔

جنوبی افریقہ کی بولنگ بھی عمدہ پرفارم کر رہی ہے۔ کگیسو ربادا، کوئٹزی اور جانسن کے ساتھ کیشو مہاراج کی سپن بولنگ نے ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ بولرز پاکستانی بلے بازوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جنوبی افریقہ کی کمزوری کی اگر بات کریں تو اب تک انہوں نے تمام میچز پہلے بیٹنگ کرکے جیتے ہیں۔ صرف نیدرلینڈز کے خلاف ہدف کا تعاقب کرنا پڑا اور وہ ناکام رہے تھے۔

جنوبی افریقہ پانچ میچوں میں 8 پوائنٹس کے ساتھ دوسری پوزیشن پر ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس کا رن ریٹ سب سے زیادہ ہے۔

پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان گذشتہ تمام ورلڈ کپ میں پانچ میچ ہوچکے ہیں، جن میں سے تین میں جنوبی افریقہ اور دو میں پاکستان نے فتح حاصل کی ہے۔

پچ کا برتاؤ

چنئی کی پچ نے جس طرح افغانستان کے بولرز کو مدد دی تھی، اس سے پاکستان کی بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ اگر پچ میں سپن ہوا اور گیند کو باؤنس نہ ملا تو پاکستان کے لیے امکانات زیادہ ہیں۔

ٹاس کی اہمیت

چنئی میں ٹاس بہت اہم ہو گا۔ جو ٹیم بھی جیتے گی وہ پہلے بیٹنگ کرے گی کیونکہ پہلے سیشن میں پچ پر مناسب باؤنس ہو گا جبکہ وقت کے ساتھ پچ سست ہو جائے گی۔

پاکستان کے لیے آخری موقع ہو گا کہ وہ اس میچ کو جیت کر ٹورنامنٹ میں واپس آجائے تاہم اگلے مرحلے تک پہنچنے کے لیے تمام میچ جیتنا ضروری ہوں گے۔

پاکستانی ٹیم کی اب تک کی کارکردگی سے جمعے کے میچ میں کوئی بڑی کامیابی تو خلاف توقع ہو گی لیکن شائقین 1992 کے ورلڈ کپ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے امید کر رہے ہیں کہ جس طرح پانچویں میچ تک صرف تین پوائنٹس کے باوجود پاکستان نے اپنے آخری چار میچ جیت کر سیمی فائنل میں رسائی حاصل کرلی تھی، شاید اس دفعہ بھی ایسا ہی ہو لیکن اُس  ورلڈ کپ میں آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز کو غیر متوقع شکست دے کر پاکستان کا راستہ ہموار کیا تھا۔

ممکن ہے اس بار وہی کارنامہ انگلینڈ آسٹریلیا کے خلاف انجام دے، تاہم سارے اندازے اسی وقت کارگر ہوں گے، اگر پاکستانی ٹیم خود بھی تمام میچ جیت جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ