کشمیر: ’بجلی کا بل دریا میں بہانے پر غداری کے مقدمے درج ہوئے‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جاری احتجاجی تحریک میں شامل نوجوان شکوہ کر رہے ہیں کہ حکومت کریک ڈاون کر رہی ہے جبکہ حکومت میں شامل بعض جماعتیں اس احتجاج کے تانے بانے 'غیر ملکی طاقتوں' کے ساتھ جوڑ رہی ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بجلی اور اشیائے خردو نوش کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جاری احتجاجی تحریک پچھلے کئی ماہ سے جاری ہے اور اب اس تحریک کے مطالبات میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے عوامی پزیرائی بھی بڑھ رہی ہے۔

ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ اتنی بڑی احتجاجی تحریک مرکزی سیاسی دھارے میں شامل جماعتوں کے بغیر ہی آگے بڑھ رہی ہے بلکہ حکومت میں شامل اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) تو برملا اس احتجاجی تحریک کی مخالف ہے اور اس کے تانے بانے 'غیر ملکی طاقتوں' کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔

کئی ماہ سے جاری اس احتجاج تحریک کی ابتدا ضلع پونچھ کے شہر راولاکوٹ سے ہوئی جہاں شہریوں نے قیمتوں میں اضافے کے خلاف بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ کیا بلکہ کئی علاقوں میں شہریوں نے محکمہ توانائی اور واپڈ  نوٹس جاری کیے کہ کو ان کی ملکیتی زمینوں میں بجلی کی تنصیبات کا کرایہ ادا کیا جائے یا ایک ماہ کے اندر اندر یہ تنصیبات وہاں سے منتقل کی جائیں۔

اس تحریک میں نوجوان طلبا اور تاجروں کی بڑی تعداد شامل ہے اور وہی اس کے روح رواں ہیں۔ کئی شہروں میں ہونے والے بڑے احتجاجی مظاہروں کو منظم کرنے اور دھرنے دینے میں یہ نوجوان پیش پیش رہے۔

مظفرآباد کے راجہ صہیب جاوید بھی اس احتجاجی تحریک میں شامل ہیں۔ انہیں اب تک تین الگ الگ مقدمات میں پولیس نے نامزد کر رکھا ہے۔ ایک احتجاجی دھرنے کے دوران پولیس کے تشدد سے ان کی آنکھ متاثر ہوئی۔ پولیس لاٹھی چارج کے دوران آنکھ پر آنے والے چوٹ کے آثار اب بھی نمایاں ہیں۔

مظفرآباد کے ایک نجی کالج میں ایل ایل بی کے طالب علم راجہ صہیب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: 'ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ انتظامیہ کے ساتھ ہماری بات چیت بھی چل رہی تھی کہ ہم آپ کے ساتھ بیٹھیں گے اور ان مسائل کا حل نکالیں گے۔ انہوں نے ہمارے دھرنے اکھاڑے اور اس کے تو اس کے دوسرے دن لوگ اس کے خلاف نکلے تو پوری دنیا نے دیکھا ہمارے جتنے طلبہ، تاجر کونسلر، ٹرانسپورٹر سب کو پولیس نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔'

راجہ صہیب کہتے ہیں کہ اس تحریک کے شروع ہونے کا مقصد یہ تھا کہ کشمیر بھر میں جو مہنگی بجلی مہنگا آٹا مل رہا ہے اسے سستا کرنے کے لیے وزررا اور سرکاری افسران کی بےجا مراعات ختم کی جائیں۔

حکومت پاکستان اور واپڈا سے شکوہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 'آپ ہمارے دریاوں کی حالت دیکھیں۔ انہوں نے ہمارے دریاوں پر بجلی کے منصوبے تو تعمیر ک لیے لیکن ہمارے ساتھ جو معاہدے کیے یہ ان پر عمل درآمد نہیں کر رہے۔'

 راجہ صہیب کے بقول: 'ہماری ریاست سے تقریباً 25 سو سے 27 سو میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے اور مزید جو منصوبے لگنے ہیں ان سے پانچ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ ہماری ضرورت کل تین سو بچاس میگا واٹ ہے۔ ہمارا صرف اتنا مطالبہ ہے کہ ہمیں پیدواری قیمت پر بجلی دی جائے جو ہمارا حق ہے، ہر کشمیری ہر فرد کا حق ہے۔'

اس تحریک میں شامل ایک اور طالب علم راہنما مجتبیٰ بانڈے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'اس تحریک کا آغاز پر امن تھا تھا اور ہم آج تک پر امن ہیں۔ لیکن آپ دیکھیں کہ ریاست اس پر امن احتجاج کو پر تشدد بنانے، گرفتاریاں، کریک ڈاون کی طرف گئی ہے۔'

وہ کہتے ہیں، 'سب سے پہلے جب ہم بجلی بل کے بائیکاٹ کی طرف گئے تو ہمارے اوپر جو ایف آئی آر ہوئی ہیں وہ بجلی بل دریا برد کرنے کی ہوئی ہیں۔ وہ بجلی بل جو ہمارے پیسے سے بنتے ہیں اور وہ کاغذ جس کو بینک میں جمع کرانے کے لیے بھی ہمیں آٹھ روپے (اضافی) دینا پڑتے ہیں اس کاغذ کو دریا برد کرنے پر ہم پر بغاوت کے اور غداری کے مقدمات بنے۔'

جموں و کشمیر یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کے طالب علم خواجہ مجتبی بانڈے خود بھی ایک مقدمے میں نامزد ہیں اور انہوں نے عدالت سے عبوری ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'بہت سارے ایسے بھی دوست ہیں جن پر ایک ہی وقت میں تین ایف آئی آرز کاٹی گئیں کہ وہ سیکریٹریٹ کے علاقے میں اجتجاج کر رہے تھے ان پہ ادھر غداری اور بغاوت کا مقدمہ ہوا، اسی وقت وہ پلیٹ کے علاقے میں بھی احتجاج کر رہے تھے، ان پہ ادھر دہشت گردی کا مقدمہ بن گیا اور اسی دوران وہ مدینہ مارکیٹ میں احتجاج  میں شامل تھے ان پر ادھر بھی غداری اور بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا۔'

ماضی میں بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیاسی اور عوامی دلچسپی کے معاملات پر ہونے والے احتجاج کے منتظمین پر بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات درج ہوتے رہے ہیں تاہم ان میں سے کم ہی مقدمات انجام تک پہنچے، عموماً حکومت اور انتظامیہ ان مقدمات کو احتجاجی تحریکھ دبانے کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے اور بالاخر یہ مقدمات واپس لے لیے جاتے ہیں۔

اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔

کشمیر میں پولیس کے ریکارڈ کے مطابق بجلی کے اضافی بلوں کے خلاف جاری احتجاجی تحریک کے دوران کل 48 مقدمات درج کیے جاچکے ہیں جن میں 480 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ان مقدمات میں کل بائیس سو سے زائد افراد مطلوب ہیں۔ سینٹرل پولیس آفس کے پی آر آو مبشر قریشی کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس دوران پولیس نے 53 افراد کو گرفتار کیا تاہم وہ تمام افراد رہا ہو چکے ہیں اور پولیس کی حراست میں کوئی بھی شخص موجود نہیں۔

سب سے زیادہ مقدمات پونچھ ضلع میں درج ہوئے جن کی تعداد 23 ہے جبکہ مظفرآباد اور پونچھ ضلع میں 19، 19 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

کشمیر کی حکومت کی جانب سے عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں شامل وزیر حکومت میاں عبدالوحید نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران کے ساتھ مذاکراتی عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور یہ عمل بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں: 'ایکشن کمیٹی کے مطالبے پر پہلے مرحلے میں حکومت نے تمام گرفتار افراد کو رہا کر دیا ہے۔ یہ عمل آگے بڑھا تو مقدمات بھی ختم ہو جائیں گے۔'

وہ کہتے ہیں: 'بہت سارے معاملات غلط فہمی اور موثر پیغام رسانی نہ ہونے کا نتیجہ ہیں۔ حکومت پہلے ہی مظاہرین کے بیشتر مطالبات پورے کر چکی ہے۔'

میاں عبدالوحید بھی وزیر اعظم انوار الحق کے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں کہ حکومت بجلی کے بلوں میں جون میں ہونے والا اضافہ واپس لے چکی ہے اور نیپرا کا جاری کردہ ٹیرف کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لاگو کرنے کی بجائے اپنے علیحدہ ٹیرف کے تعین کے لیے نیپر طرز کا ادارہ قائم کرنے کے لیے قانون سازی ہو رہی ہے۔'

اس سوال پر کہ اسلام آباد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اکتوبر میں بھیجے جانے والے بجلی کی فی یونٹ قیمت یکساں ہیں، میاں عبدالوحید نے دعویٰ کیا کہا اس وقت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بجلی تقریباً 23 روپے فی یونٹ سستی مل رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ معاملہ بجلی کی بنیادی ٹیرف کا نہیں بلکہ جون میں لگائے گئے اضافی ٹیکسوں کا ہے جو حکومت نے واپس لے لیا ہے اور صارفین سے وصول کی گئی اضافی رقم اگلے بلوں میں ایڈجسٹ کر دی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت