کیا پاکستان کرکٹ بورڈ آسمانوں میں ہے؟

اب ہزاروں کرکٹرز کا مستقبل ان چھ ریجنل ایسوسی ایشنز کے ہاتھوں میں ہے جہاں صرف اقربا پروری اور کرپشن کا یہ حال ہے کہ عہدے دار ابھی سے دام لگا رہے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی، چیف ایگزیکٹیو وسیم خان اور ہارون رشید  ریجنل  کرکٹ کے ڈھانچے کی تقریب رونمائی سے گفتگو کرتے ہوئے (پی سی بی)

جب ہٹلر نے روس پر موسم سرما میں حملہ کیا تو اس کے عسکری مشیروں نے موسم کی شدت اور روس کے برفانی محاذ کے پیش نظر مشورہ دیا کہ یہ حملہ موقوف کر دیا جائے لیکن ہٹلر نہ مانا تو فوجی مشیروں نے موت کے نوشتوں پر دستخط کرتے ہوئے کہا تھا ’ہم زمیں پر نہیں آسمانوں میں ہیں، اس لیے ہمیں زمینی حقائق نظر نہیں آ رہے !!!!‘

پاکستان کرکٹ بورڈ بھی آج شاید کسی ایسے ہی رہنما کی سرپرستی میں ہے جسے زمینی حقائق نظر نہیں آتے اور نہ ہی انسانی فطرت نظر آتی ہے۔ انسانی فطرت سب سے پہلے اپنے جینے کے وسائل ڈھونڈتی ہے اور پھر تفریح کے مواقع۔

کرکٹ کا کھیل ایک ایسی تفریح ہے جو اپنے ابتدائی مرحلے میں تفریح لیکن اگلے مرحلے میں عیاشی میں شامل ہے۔ کرکٹ کھیلنے والے کے اخراجات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ ایک کھلاڑی کے ماہانہ خرچے میں ایک متوسط خاندان اپنا پورے ماہ کا خرچ چلا سکتا ہے۔

پاکستان کے ابتدائی دور میں کرکٹ ایک ایسا کھیل تھا جسے صرف امرا کھیل سکتے تھے لیکن ستر کی دہائی میں اُس وقت کے چئیرمین اے کے کاردار کی کوششوں سے ملک کے مالیاتی اور کاروباری ادارے کرکٹ کی ترقی اور فروغ کے لیے آگے آئے اور اپنی شعبہ جاتی ٹیمیں ترتیب دیں، جس سے وہ کرکٹر بھی ایک اعلی درجے کی کرکٹ کھیلنے لگے جن کی استطاعت میں ایک کرکٹ بیٹ خریدنا بھی ممکن نہیں تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈپارٹمنٹل کرکٹ نے نہ صرف کرکٹروں کی مالی مشکلات کو حل کیا بلکہ ایک ایسا غیرجانب دار نظام بھی متعارف کر دیا جس میں باصلاحیت کھلاڑی آگے آسکیں۔ ہر ڈپارٹمنٹ کو اپنی ٹیم کی جیت چاہیے تھی لہٰذا انھوں نے صرف میرٹ کو ہی اساس بنایا اور سفارش اور کرپشن کا دروازہ بند کر دیا۔

سینکڑوں بڑے کرکٹر صرف اس لیے بن سکے کیوں کہ انہیں صلاحیتیں دکھانے کا موقع مل سکا ورنہ ریجنل کرکٹ کی کرپشن نے تو عظیم کھلاڑی یونس خان کو کراچی کی ٹیم میں منتخب نہ ہونے دیا اور انہیں مردان جا کر قسمت آزمائی کرنی پڑی۔ 

لیکن انہی کھلاڑیوں کے بل پر اربوں روپے کمانے والی پی سی بی کو اس نظام سے کانٹے چبھنے لگے اور ہرے بھرے درخت کی جڑوں کو کاٹنے بیٹھ گئی۔ امپورٹد چیزوں سے نفرت کرنے والے وزیر اعظم نے انگلینڈ پلٹ دو امپورٹڈ لوگوں کو بورڈ کا والی وارث بنا کر ایک ایسے سسٹم کا گلا گھونٹ دیا جو ہزاروں کرکٹروں کے گھروں کے چولہے جلا رہا تھا۔

اب چھ ریجنل ایسوسی ایشنز کے ہاتھوں میں ان ہزاروں کرکٹرز کا مستقبل ہے جہاں صرف اقربا پروری اور کرپشن کا یہ حال ہے کہ کھلے عام سودے بازی ہو رہی ہے اور عہدے داروں نے ابھی سے دام لگانا شروع کر دیے ہیں۔

کرکٹ کے اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ بغیر کسی سپانسر کے اسے کھیلنا ناممکن ہے لیکن پی سی بی کو اس بات سے قطعاً دلچسپی نہیں کہ یہ کھلاڑی اپنے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے۔

پی سی بی نے اپنے نئے سسٹم میں ریجنل ایسوسی ایشن کی تعداد 16 سے کم کرکے چھ کر دیا اور جواز یہ ہے کہ کرکٹ کا معیار بلند ہونا چاہیے لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ اتنے زیادہ کھلاڑی کس طرح چھ ٹیموں میں سمائیں گے۔

دوسری طرف ڈومیسٹک کرکٹ کو تین درجوں میں تقسیم کردیاگیا لیکن یہ واضح نہیں کہ سٹی کرکٹ اور کلب کرکٹ کو کون منظم کرے گا اور ان پر چیک اینڈ بیلنس کیسے ہوگا نیز ان کی کارکردگی کون جانچے گا اور ان کے مالی اخراجات کون برداشت کرے گا۔

ماضی میں کلب کرکٹ کے سپانسرز وہی مالیاتی ادارے ہوا کرتے تھے جن کی بڑی ٹیمیں بھی تھیں لیکن اب ان کی عدم دلچسپی سے کلب کرکٹ بھی متاثر ہوگی۔ نئے منصوبے میں کہا گیا ہے کہ ہر کرکٹ ایسوسی ایشن 32 کھلاڑیوں کو 50 ہزار روپے مہینے کا کنٹریکٹ دے گی لیکن وہ پیسہ کہاں سے آئے گا اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔

بادی النظر میں پی سی بی کا یہ منصوبہ ایسے کرکٹرز کا گلا گھونٹنے کے لیے تیار کیا گیا ہے جو کسی متمول خاندان سے نہیں اور ان کی پشت پر ایچیسن کالج کی مہر نہیں جیسے کہ ماضی بعید میں ہوتا رہا ہے۔

اس نئے منصوبے سے کرکٹ کی پاکستان میں کیا ترقی ہوتی ہے اور عالمی رینکنگ میں پاکستان کہاں پہنچتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن فی الحال اس منصوبے کے خالقوں اور ان کے سرپرست ہر بڑے کرکٹر کی تنقید کے باوجود اپنی بات پر بضد رہنے سے لگتا ہے پاکستان کرکٹ بورڈ زمین پر نہیں بلکہ آسمانوں میں ہے۔


نوٹ: ادارے کا اس مضمون میں رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، لیکن یہ فورم اس پر مخالف رائے کے لیے بھی دستیاب ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ