موجودہ صورت حال میں انتخابی مہم نہیں چلا سکتے: فضل الرحمٰن

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’میرے جو مدمقابل ہیں ان سے میں نے پوچھا تو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔‘

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے ملک میں امن و امان کی جو موجودہ صورت حال ہے اس میں کم از کم وہ اپنے حلقے میں انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’میرے جو مدمقابل ہیں ان سے میں نے پوچھا تو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔‘

 ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم تو الیکشن کی تاریخ آنے سے پہلے یہ بات کر رہے تھے۔ اگر ان کو لاہور یا اسلام آباد نظر آ رہا ہے لیکن خیبر پختونخوا اور بلوچستان نظر نہیں آ رہا تو ان کا فیصلہ ہے ہم کیا کہہ سکتے ہیں ہم تو پھر الیکشن لڑیں گے۔‘

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’چیلنجز ہیں کہ ہم ایک ادارے کو مستثنیٰ قرار نہیں دے سکتے۔ ملک کو اقتصادی چیلنجز میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے معیشت کو بچانے کے لیے کچھ سخت فیصلے لیے ہیں۔

’حکومت کو بھی کہا کہ آؤ مل کر لڑتے ہیں تو یہ قومی وطنی جذبہ ہے۔ لیکن قیام امن کے لیے ماضی میں جو آپریشن ہوئے اس سے فوجی حکمت عملی سے اختلاف ضرور کیا لیکن ہم رکاوٹ تو نہیں بنے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر امن مجھے مل جاتا ہے تو میں آپ کو سیلوٹ کروں گا شکریہ ادا کروں گا اور اپنے اداروں پر فخر کریں گے۔ بات تو بنیادی یہی ہے کہ ہمیں نتائج چاہییں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’صرف یہ تو نہیں کہ آپ اپنا ایک موقف اٹھائیں اور لوگوں سے قابل قبول بنوانے کے لیے پورے میڈیا کو استعمال کریں لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ ہو تو پھر اس کا کیا فائدہ۔‘

مولانا سے سوال کیا گیا کہ ’الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کی مشاورت چل رہی ہے تو آپ بھی اب کسی سیاسی اتحاد کے لیے مشاورت کر رہے ہیں؟‘

اس سوال پر مولانا فضل الرحمن نے جواب دیا کہ ’الیکشن کے قریب آتے آتے سیاسی اتحاد بھی بنتے رہیں گے اور ایڈجسٹمنٹ بھی ہوتی رہے گی میرا خیال ہے یہ معمول کی سیاست ہے اس کو معمول کی سیاست کا حصہ سمجھنا چاہیے۔‘

کیا خیبر پختونخوا میں جے یو آئی ایف کا کم بیک ہو سکتا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے جواب دیا کہ ’جو حالات چل رہے ہیں کوئی مداخلت نہ کرے تو کے پی کے میں جمعیت علمائے اسلام سب سے بڑی جماعت ہے۔ جو ہمارا تجزیہ ہے اس سے اندازا یہی ہے کہ کے پی میں جمعیت کی پوزیشن واضح ہے۔‘

مولانا سے پوچھا گیا کہ ’پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جیل میں ہیں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے لیے میدان کھلا ہونا چاہیے؟‘

 اس سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میں تو ذاتی طور پر کہتا ہوں کہ مجھے عمران خان اور پی ٹی آئی کا نام لیتے ہوئے بھی اچھا نہیں لگتا کیوں کہ ان کے ہاتھ بندھے ہیں اور میرے ہاتھ کھلے ہیں تو ایسے لڑائی کا مزہ نہیں آتا۔ اگر وہ کھلے پھر رہے ہوں گے ہم ان کو پبلک میں شکست دیں گے ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق ’اب یہ ہے کہ قانون تو قانون ہے۔ اگر وہ قانون کی گرفت میں ہیں اور انہوں ریاست کے خلاف ایسے اقدامات کیے ہیں تو پھر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے ممکن ہے ان پر پابندی لگ جائے بجائے اس کے کہ ہم برابر کے حصہ دار بننے کے لیے ان کی الیکشن میں شمولیت میں خواہش کا اظہار کریں۔ ‘

پی ٹی آئی وفد سے ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کا وفد تعزیت کے لیے آیا تھا جو ہماری پختون روایات کے مطابق ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست