عمران خان کے خلاف سائفر کیس کی سماعت اڈیالہ میں کیوں ضروری؟

نگران حکومت کا کہنا ہے کہ عمران خان کی زندگی کو سنجیدہ نوعیت کے سکیورٹی خدشات ہیں اس لیے وزارت داخلہ اور خصوصی عدالت کے جج کی سفارش پر جیل میں مقدمہ چلانے  کی اجازت دی گئی۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے27 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں ایک مبینہ خط لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے (ویڈیو سکرین گریب/ پی ٹی وی)

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف امریکی سائفر کو عام کرنے کے جرم میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں خصوصی عدالت میں کی جا رہی ہے۔

عمران خان کے وکلا نے اوپن کورٹ ٹرائل یعنی کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے جبکہ وزارت قانون نے اس سے قبل ہی نگران وفاقی کابینہ سے جیل میں ٹرائل کرنے کی منظوری لے لی۔

نگران وفاقی کابینہ نے جیل ٹرائل کے لیے وزارت قانون کی سمری منظور کرتے ہوئے سائفر کیس میں عمران خان کی جیل ٹرائل کی منظوری دے دی۔

جیل ٹرائل کی وجوہات؟

وزارت قانون نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ عمران خان کی زندگی کو سنجیدہ نوعیت کے سکیورٹی خدشات ہیں۔ اس لیے وزارت داخلہ اور خصوصی عدالت کے جج کی سفارش پر جیل میں مقدمہ چلانے کے لیے اجازت نامہ جاری کیا تھا۔

فاضل جج نے رواں ماہ وزارت داخلہ کے نام خط میں کہا تھا ’سکیورٹی کے باعث پہلے سے ہی سائفر کیس کی سماعت جیل میں کی جا رہی ہے ملزم کی زندگی کو لاحق خطرات کے پیش نظر مناسب یہی ہے کہ اڈیالہ جیل میں ہی سماعت کی اجازت دی جائے۔‘

اڈیالہ جیل کے قریب دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی

سات نومبر کو اڈیالہ جیل کے گیٹ نمبر پانچ کے قریب راولپنڈی کے نواحی علاقہ گورکھ پور میں مشکوک بیگ کی اطلاع ملی تھی۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی تھی کہ اس بیگ سے 1200 گرام بارود والا  بم ملا جسے ’ڈی فیوز‘ یا ناکارہ  بنا دیا گیا۔ مبینہ بم اڈیالہ جیل کے گیٹ 5 سے 100 میٹر دور فاصلہ پر ڈھاکہ سویٹ گورکھ پور کے قریب رکھا گیا تھا۔

مقدمے کا سیاق وسباق

سائفر کیس میں گرفتاری سے قبل عمران خان توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ ہونے پر اٹک جیل میں زیر حراست تھے جس کے بعد سائفر کیس میں جب وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو اٹک جیل میں ہی ان سے سائفر کیس کی تفتیش کی گئی اور ابتدائی طور پر خصوصی عدالت اٹک جیل میں جا کر سماعت کرتی رہی۔ توشہ خانہ میں سزا معطلی کے باوجود سائفر کی وجہ سے وہ اٹک جیل میں ہی رہے۔

عمران خان کی درخواست پر انہیں بعد ازاں اٹک جیل سے اڈیالہ منتقل کیا گیا اور خصوصی عدالت اڈیالہ جیل جا کر سماعت کرتی رہی۔

سائفر کیس کے اوپن ٹرائل کی درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں

عمران خان کی قانونی ٹیم نے ٹرائل اوپن رکھنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ سنگل بینچ نے 16 اکتوبر کو جیل ٹرائل کے خلاف درخواست مسترد کر دی تھی۔ جبکہ 23 اکتوبر کو عمران خان نے سائفر کیس کے اوپن ٹرائل کے لیے دوبارہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے جیل ٹرائل کے خلاف درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ چیلنج کیا۔

گذشتہ سماعت پر عمران خان کے وکیل نے ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے سامنے موقف اختیار کیا کہ ’چیئرمین پی ٹی آئی کو ایف ایٹ کچہری میں طلب کیا گیا تو ہم نے مقام تبدیلی کی درخواست دی، اہم سیاسی شخصیت کے لیے ایف ایٹ کچہری میں پیش ہونے پر شدید سیکیورٹی خدشات تھے، ہماری درخواست پر عدالت کا مقام تبدیل کر کے جوڈیشل کمپلکس منتقل کیا گیا، اور اب جیل ٹرائل کی محض ایک وجہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سیکیورٹی کو قرار دیا گیا، محض سیکیورٹی کو وجہ بنا کر جیل ٹرائل نہیں کیا جا سکتا۔‘

جبکہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کے لیے عدالت سے وقت طلب کیا تھا جس پر جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا تھا کہ یہ عدالت چاہتی ہے کہ اس کیس کا فیصلہ جلد کر دیا جائے اور مزید کہا کہ ’اٹارنی جنرل کو سن لیں، ابھی حکم امتناعی جاری نہیں کریں گے۔‘

اب جیل ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت 14 نومبر کو ہو گی جس میں عدالت نے اٹارنی جنرل سے دلائل طلب کر رکھے ہیں جبکہ دوسری جانب عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف 14 نومبر کو سائفرکیس کی سماعت بھی اڈیالہ جیل میں ہو گی جس میں چھ گواہ پیش ہوں گے۔

اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کے لیے بنائی گئی عدالت کیسی ہے؟

وکیل استغاثہ شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ کمرہ جیل کے اندر نہیں ہے بلکہ اڈیالہ جیل کے ایڈمن بلاک میں ہے۔ جبکہ اس کمرے کا ایک حصہ جیل سے متصل ہے۔ ایک مناسب سائز کا کمرہ ہے جس میں کمرے کا بڑا حصہ عدالت کے لیے مختص ہے جبکہ جیل کی جانب کھلنے والے راستے کی طرف کمرے کے درمیان میں جالی لگا کر الگ چھوٹا حصہ بنایا گیا ہے جس سے آر پار دیکھا جا سکتا ہے۔‘

شاہ خاور نے کہا کہ وکلا استغاثہ اور عدالتی عملہ ایڈمن بلاک سے کمرے میں داخل ہوتے ہیں جبکہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی جیل کے اندر سے اس کمرے میں جالی کے اس پار آ کر کرسیوں پر بیٹھتے ہیں۔

انہوں مزید کہا کہ ’عمومی طور عمران خان ٹریک سوٹ میں ملبوس ہوتے ہیں اور شاہ محمود قریشی شلوار قمیض پہنے ہوتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان