امریکہ کے صدر جو بائیڈن ہفتے میں پانچ دن ورزش اور ویٹ لفٹنگ کے ساتھ ساتھ گالف کھیلنا بھی پسند کرتے ہیں۔
جو بائیڈن اپنی 81 ویں سالگرہ منا رہے ہیں، اگلے سال کے انتخابات جیتنے کی صورت میں وہ 86 سال کی عمر تک عہدے پر فائز رہ سکتے ہیں۔
’جو بائیڈن ابھی زندہ ہیں اور دوبارہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔‘ یہ پیغام اکتوبر کے آخر میں امریکی صدر کی سیکنڈ ان کمان کملا ہیرس کی جانب سے تھا۔
یہ ایک رپورٹر کے اس سوال کا اچھا جواب نہیں تھا جس میں پوچھا گیا تھا، ’اگر بائیڈن کو کچھ ہو گیا اور وہ انتخاب لڑنے کے قابل نہ ہوئے تو پھر کیا ہوگا؟‘
لیکن اس طرح کے سوالات – جن کا محور بائیڈن کی عمر ہے – نے نہ صرف 2020 میں منتخب ہونے کے بعد سے ان کا تعاقب کیا، بلکہ 2024 میں اگلے صدارتی انتخابات سے قبل بھی بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
اور یہ غیر متوقع نہیں ہے۔ جب بائیڈن گذشتہ سال نومبر میں 80 برس کے ہوئے تو وہ امریکی صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے پہلے 80 سالہ شخص بن گئے۔
پیر 20 نومبر کو وہ 81 سال کے ہو گئے۔ وہ پہلے ہی امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہیں اور اگر وہ اوول آفس میں دوسری مدت پوری کرتے ہیں تو وہ اپنی مدت ختم ہونے پر 86 برس کے ہو جائیں گے۔ لہذا یہ شاید حیرت کی بات نہیں ہے کہ 77 فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ بائیڈن دوبارہ انتخاب لڑنے کے لیے بہت بوڑھے ہیں۔ اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتے ہیں۔
تو وائٹ ہاؤس میں او اے پی کا ہونا کیسا لگتا ہے، اور انہیں چلائے رکھنے کے لیے کیا ضروری ہے؟ اور سب سے بڑھ کر کیا ہمیں خیال رکھنے کا حق ہے؟
بائیڈن دنیا کے نویں معمر ترین قومی رہنما ہیں۔ سب سے عمر رسیدہ کیمرون کے صدر پال بیا ہیں، جو 1933 میں پیدا ہوئے اور 1982 میں صدر بنے، جس سے وہ اپنی نوے کی دہائی میں واحد موجودہ قومی رہنما بن گئے۔
امریکہ میں صدارتی انتخاب لڑنے کے لیے عمر کی کوئی حد نہیں ہے، لیکن کی ایک بنیادی حد ہے۔ اگر آپ 35 سال سے کم عمر ہیں تو آپ آزاد دنیا کے رہنما نہیں بن سکتے- شاید اس وجہ سے کہ آئین سازوں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ وہ عمر ہے جس تک پہنچنے کے لیے آپ کو کچھ حاصل کرنا ضروری ہے۔
اگرچہ اس کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے، لیکن زیادہ تر امریکی صدور اپنی صحت اور طبی ریکارڈ ظاہر کرتے ہیں۔
جو بائیڈن کا ریکارڈ آخری بار فروری میں پریس کے لیے جاری کیا گیا تھا۔ ان کے ذاتی معالج، کیون او کونر نے ان کی طبی ہسٹری کا جائزہ لیا اور ایک تفصیلی جسمانی معائنہ کیا۔ اس سے – اور ساتھ ہی ان کے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ انٹرویو میں حاصل کردہ معلومات – سے جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ ذیل میں دیا جا رہا ہے۔
بائیڈن چھ فٹ لمبے ہیں، ان کا وزن 178 پاؤنڈ (81 کلو گرام سے تھوڑا کم) ہے، کانٹیکٹ لینس پہنتے ہیں، تمباکو نوشی یا شراب نہیں پیتے اور ہفتے میں کم از کم پانچ دن ورزش کرتے ہیں۔
2021 میں صدر کے قریبی افراد کے انٹرویوز کے بعد واشنگٹن پوسٹ نے ان کا روزانہ کا شیڈول شائع کیا تھا، جس میں روزانہ کی ورزش بھی شامل تھی جس میں اکثر ویٹ لفٹنگ شامل تھی، اور لکھا کہ وہ باقاعدگی سے ذاتی ٹرینر کی مدد لیتے تھے۔
وہ اپنی سائیکل چلاتے اور پیلوٹن(ورزش والی مشین) استعمال کرتے ہیں۔ ان کا پسندیدہ دوپہر کا کھانا سوپ اور سلاد ہے (نارنجی گیٹوریڈ کے ساتھ دھویا ہوا)۔ چند سال قبل خاتون اول جل بائیڈن نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے کھانے میں کیچپ، مونگ پھلی کا مکھن اور جام شامل ہیں اور رات کے کھانے میں انہیں پاستا اور ٹماٹر کی چٹنی پسند ہے۔
بہت سے سابق صدور کی طرح، وہ گالف کھیلنا پسند کرتے ہیں (وہ ڈیلاویئر میں ولمنگٹن کنٹری کلب کے رکن ہیں، اور گالف ڈائجسٹ کے مطابق واشنگٹن ڈی سی کے معروف کھلاڑیوں میں 68 ویں نمبر پر ہیں)۔
بائیڈن کے جسمانی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا بلڈ پریشر 128/76 (قدرے بلند) تھا، اور او کونر نے نوٹ کیا کہ، 2022 کے موسم گرما میں، بائیڈن کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد سانس کے انفیکشن میں مبتلا ہوگئے، لیکن انہیں صرف ہلکی علامات ظاہر ہوئیں ’جس میں ہلکی کھانسی اور خراش شامل تھی۔‘
ان کے ڈاکٹر نے نوٹ کیا کہ ان کا نان ویلولر ایٹریئل فبریلیشن (دل کی بے ترتیب دھڑکن) اور ہائپرلیپیڈیمیا، جسے آپ کے خون میں کولیسٹرول یا ٹرائی گلیسرائڈز جس کو بہت زیادہ چربی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے-لیکن او کونر نے بتایا کہ یہ دوا کی بدولت ’مستحکم‘ تھا۔
صدر کو کبھی کبھار گیسٹرواسفیگل ریفلکس کی علامات کا بھی ظاہر ہوتی ہیں، جو عام طور پر کھانے کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے، جس کے لیے انہیں باقاعدہ ایسڈ بلاکر تجویز کیا گیا تھا جسے فیموٹیڈین کہا جاتا ہے۔ وہ موسمی الرجی کا بھی شکار ہیں جو سائی نس کی بندش کا سبب بنتی ہے، لیکن او کونر نے نوٹ کیا کہ ’کئی سائی نس اور ناک کی سرجریوں‘ کے بعد اس میں بہتری آئی ہے۔
شاید جو بائیڈن کی ظاہری طور پر سب سے نمایاں حالت ’سٹیفنڈ گیٹ‘ ہے جو اس وقت واضح ہوتی ہے جب وہ روز گارڈن یا ایئر فورس ون سے پوڈیم پر جاتے ہیں۔
قدامت پسند مبصرین نے اس موقع پر چھلانگ لگا دی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی بگڑتی ہوئی صحت کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔
ان میں سے ایک علی الیگزینڈر نے اسے بائیڈن کی 'پارکنسنئن واک' بھی کہا تھا۔ تاہم اوکونر کا کہنا تھا کہ 2021 میں فریکچر کے بعد ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ ساتھ پاؤں میں گٹھیا ہونے کے باوجود بائیڈن کا 'انتہائی تفصیلی اعصابی معائنہ' کیا گیا تھا، جس کے نتائج میں کسی اور اعصابی خرابی کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
صدر کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ان کی جلد کے متعدد نان میلانوما سکن کینسر ختم کیے جا چکے تھے، اور اس وجہ سے ان کی اس حالت کا باقاعدگی سے چیک اپ ہوتا ہے۔ لیکن اوکونر نے لکھا کہ بائیڈن ’ایک صحت مند، پرجوش، 80 سالہ مرد ہیں، جو صدارت کے فرائض کو کامیابی سے انجام دینے کے قابل ہیں۔‘
اور اس کے باوجود، عمر بڑھ رہی ہے۔ فوکس نیوز کا کہنا ہے کہ بائیڈن کی انتخابی مہم کی ٹیم انہیں عوامی مقامات پر جانے سے روکنے کے مشن پر ہے، انہوں نے ایئر فورس اکیڈمی میں گرنے کے بعد اپنے سفر کے دوران ٹرینرز(جوگر) پہننا شروع کر دیے تھے اور ہوائی جہاز کے کم بلند دروازے تک چھوٹی سیڑھیاں استعمال کرتے ہوئے ایئر فورس ون میں سفر شروع کر دیا تھا۔
ایک طبی ماہر نے نیٹ ورک کو بتایا کہ ان کے خیال میں بائیڈن میں ’دماغی سست روی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں‘ جبکہ قدامت پسند میگزین ’نیشنل ریویو‘ کے لیے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ’صدر کی ذہنی صحت کے آزادانہ طبی جائزے‘ کا مطالبہ کیا گیا۔
جب آپ غور کرتے ہیں کہ تمام امریکی صدور میں سے تقریباً نصف زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہیں تو، ستم ظریفی یہ ہے کہ بائیڈن صحت کی ایک تصویر نظر آتے ہیں۔
آدھے سے زیادہ لوگ کسی نہ کسی قسم کی تمباکو کی مصنوعات استعمال کرتے تھے – اور آدھے سے زیادہ لوگ عہدہ چھوڑنے کے ایک دہائی کے اندر ہی مرگئے ہیں۔
بل کلنٹن کو جوگنگ کے دوران میک ڈونلڈز پر رکنا پسند تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہر روز 12 ڈائٹ کوک پیتے تھے اور انہیں کینٹکی فرائیڈ چکن کا شوق تھا۔ براک اوباما نے سگریٹ نوشی کی، جبکہ رونالڈ ریگن نے تمباکو نوشی چھوڑنے میں مدد کے لیے بڑی مقدار میں جیلی بینز کھائیں (اس کے علاوہ ان کی صدارتی مدت ختم ہونے کے قریب ڈیمنشیا کی علامات ظاہر ہوئیں)۔
جان ایف کینیڈی کمر کے دائمی درد میں مبتلا تھے۔ فرینکلن ڈی روزویلٹ کو 1921 میں پولیو کی تشخیص ہوئی تھی اور انہوں نے وہیل چیئر استعمال کی، لیکن اپنی بیماری کی شدت کو چھپانے میں کامیاب رہے۔ اور ووڈرو ولسن کو عہدے پر رہتے ہوئے فالج ہوا تھا۔
ان سبھی کے عملے کا ایک طبی ورکر وائٹ ہاؤس میں رات بھر قیام کرتا تھا اور جب بھی وہ سفر کرتے تو ان کے قافلے میں ایک ذاتی معالج ہوتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر تھک جاتے اور بیمار پڑ جاتے ہیں، لیکن صدارتی مورخ الیکسس کو کہتے ہیں کہ ماضی میں مسئلہ یہ رہا ہے کہ صدر آسانی سے اقتدار چھوڑنا نہیں چاہتے تھے، چاہے انہیں صحت کے کسی بھی مسائل کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑا ہو۔
’وہ کیلون کولج [جو 1923 اور 1929 کے درمیان امریکہ کے 30 ویں صدر کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے] کو ایسے شخص جتنا سست سمجھتے تھے، جو کوئی بھی کام نہ کر سکتا ہو، اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ جب وہ صدر تھے تو ان کے 15 سالہ بیٹے کو چھالا نکلا جو سیپسس میں بدل گیا اور ان کی موت ہو گئی۔ اپنے بیٹے کی موت کے بعد ، کولج کا وزن ڈرامائی تعداد میں اوپر نیچے ہوا ۔ وہ مطلبی تھے۔ وہ بہت سوتے تھے۔ پھر وہ سو نہیں سکتے تھے۔ جس کو ہم ڈپریشن کہتے ہیں وہ اس کے ہر ایک مرحلے سے گزرے، اور اس کے باوجود یہ بات سوانح نگاروں کو صرف پچھلے 15 برسوں میں پتہ چلی۔‘
جہاں تک بائیڈن کی صحت کا تعلق ہے تو الیکسس کو کا کہنا ہے کہ خراب حالت میں 50 سالہ شخص 81 سالہ شخص کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب انتخاب ہوگا جس کا بلڈ پریشر بڑھا ہوا ہے۔
’بائیڈن کی ٹرپنگ کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن ہمارے سب سے ایتھلیٹک صدر جیرالڈ فورڈ، جنہوں نے پروفیشنل فٹ بال کھیلی تھی اور واضح طور پر بہترین فارم میں تھے، کئی بار گرے اور لوگوں کو اس سے بہت فائدہ اٹھانا پسند تھا۔ وہ اسے کلٹز کہتے تھے۔ لیکن وہ صرف پھسلے تھے۔
’بائیڈن سو سال کی عمر تک اسی طرح کے جسمانی افعال کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں جن سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ انہیں بہترین طبی دیکھ بھال تک رسائی حاصل ہے۔‘
ظاہر ہے کہ اس وقت بائیڈن کی عمر پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے بہ نسبت ان متعدد الزامات کے جن کا ٹرمپ کو سامنا ہے، جو بائیڈن سے صرف تین سال چھوٹے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان میں جارجیا کے وہ الزامات بھی شامل ہیں جو 2020 کے انتخابات میں ان کی شکست کو بدلنے کی مبینہ کوششوں، وفاقی انتخابات میں تخریب کاری کا مقدمہ اور نیو یارک سول فراڈ کے مقدمے سے پیدا ہوئے ہیں جو ان کی کاروباری سلطنت کے لیے خطرہ ہیں۔
الیکسس کو کا کہنا ہے، ’اگر بائیڈن دوبارہ منتخب ہوتے ہیں تو ہمیں خدشہ ہے کہ وہ عہدے پر ہی انتقال کر جائیں گے۔ لیکن اگر ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوئے تو مجھے خدشہ ہے کہ ہماری جمہوریت دم توڑ جائے گی۔‘
بائیڈن کے لباس پہننے کے انداز کو بھی ٹرمپ کے انداز سے زیادہ بہتر قرار دیا گیا ہے۔ گذشتہ موسم گرما میں ایک فیشن بلاگر سے ایک میگزین کے لیے ان کے فیشن کا جائزہ لینے کے لیے کہا گیا اور انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ واشنگٹن میں زیادہ تر لوگوں کے مقابلے میں بہتر لباس پہنے ہوئے ہیں، جو شاید ’ان کی عمر اور مناسب لباس پہننے کے تجربے‘ کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بائیڈن ان چند سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جو اپنی جیکٹ کی جیب میں رومال پہنتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے سوٹ کے ساتھ پینی لوفرز بھی پہنتے ہیں۔
اور اگرچہ وہ کمزور نظر آرہے ہیں، شاید بائیڈن کو ریگن کا فقرہ ادھار لینا چاہیے جو انہوں نے 1984 میں اپنے ڈیموکریٹک حریف والٹر مونڈلے کے خلاف صدارتی مباحثے میں استعمال کیا تھا۔
عمر اور اس عہدے کے لیے ذہنی طور پر فٹ ہونے کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ریگن، جو اس وقت تاریخ کے معمر ترین صدر تھے، نے کہا تھا: ’میں سیاسی مقاصد کے لیے اپنے مخالف کی جوانی اور ناتجربہ کاری کا فائدہ نہیں اٹھاؤں گا۔‘
© The Independent