پاکستان سے واپس جانے والے افغان کس حال میں ہیں؟

جنگوں کی نذر ہونے والے وطن میں واپسی پر یہ افراد کس حال میں ہیں اور ان کو کن مشکلات کا سامنا ہے۔

13 نومبر 2023 کو بلخ میں افغانستان واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کے بچوں میں سکول بیگز تقسیم کیے جارہے ہیں (افغان طالبان)

محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے اعدادوشمار کے مطابق 17 ستمبر سے اب تک دو لاکھ 25 ہزار سے زائد افغان پناہ گزین پاکستان چھوڑ کر افغانستان واپس جا چکے ہیں تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگوں کی نذر ہونے والے وطن میں واپسی پر یہ افراد کس حال میں ہیں۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والے چھ بچوں کے والد ظہیر خان پاکستان کے شہر پشاور میں 13 سال گزارنے کے بعد ابھی واپس افغانستان واپس پہنچے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ انتہائی کم عرصے میں واپس افغانستان جانا اور آباد ہونے میں وقت لگے گا۔

’افغانستان کا دوسرا نام پناہ گزین ہے۔ پہلے والدین اور پھر 2011 میں ہم پناہ گزین بن گئے اور اسی طرح گھر بار چھوڑ کر کبھی پاکستان تو کبھی افغانستان آتے ہیں اور اس سردی میں اب بہت مشکل سے زندگی گزار رہے ہیں۔‘

ظہیر نے خاندان سمیت پشاور سے گاڑی میں سامان ڈال کر براستہ طورخم افغانستان جانے کا فیصلہ کیا تو پہلے لنڈی کوتل میں انہوں نے ہولڈنگ سینٹر میں کچھ دن گزارے اور کہتے ہیں کہ وہ تلخ تجربات ہمیشہ کے لیے زندگی میں یاد رہیں گے۔

انہوں نے بتایا، ’لنڈی کوتل سے طورخم تک گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی تھیں اور میرے ساتھ اہلیہ اور بچے تھے اور بچوں کے ساتھ بغیر گھر اور چھت کے راتیں گزارنا کسی اذیت سے کم نہیں تھی لیکن اب کوشش کر رہے ہیں کہ افغانستان میں نئی زندگی شروع کریں۔‘

ظہیر نے بتایا کہ پشاور میں وہ شٹرنگ کا کام کرتے تھے۔

’پشاور میں اب بھی بڑی بڑی عمارتوں اور گھروں میں ہمارے ہاتھوں کے نشانیاں موجود ہیں لیکن وہی سارا کاروبار چھوڑ کر افغانستان آگئے ہیں اور بغیر کسی کاروبار اور کام کے یہاں پر دن رات بسر کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا، ’افغان طالبان کی جانب سے طورخم پر جو مدد کی گئی ہے، وہ ہاد رہے گی کیونکہ ہمیں طورخم پر ابتدائی خرچے کے لیے فی خاندان دس ہزار افغانی(تقریباً) 40 ہزار پاکستانی روپے دیے گئے جبکہ ساتھ میں کیمپ میں کھانے کا باقاعدہ بندوبست اور کمبل اور چادر بھی ہمیں دیے گئے تھے۔‘

چار راتیں گزارنے کے بعد ظہیر نے بتایا کہ افغان طالبان کی گاڑیوں میں انہیں اپنے علاقوں میں پہنچایا گیا۔

’وہاں پر آباواجداد کی ایک زمین ہے جہاں پر گھر بنا ہوا ہے لیکن وہ خستہ حالی کا شکار ہے تو وہیں پر ہم نے خیمے لگایا اور اب اس میں رہ رہے ہیں جبکہ کمبل اور رضائیاں افغان طالبان کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیں۔‘

پاکستان کی حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ملک سے نکالنے کے لیے 30 اکتوبر کی ڈیڈ لائن دی تھی اور اس کے بعد اب غیر ملکیوں کے خلاف آپریشن کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔

غیر ملکیوں میں بڑی تعداد افغان شہریوں کی ہے جو وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق تقریباً 13 لاکھ تک رجسٹرڈ ہیں جبکہ 17 لاکھ سے زائد افغان شہری غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں اور ان کو ابھی نکال رہے ہیں۔

گذشتہ ہفتے نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ غیر رجسٹرڈ سمیت تمام افغان پناہ گزینوں کو نکلنا ہوگا کیونکہ اب افغانستان میں امن ہے اور ان کو ابھی جانا پڑے گا۔

بچوں کی تعلیم کی صورت حال کیسی ہے؟

پاکستان سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی واپس جانے والوں میں آدھے سے زائد بچے بھی ہیں جن میں بہت سے ایسے بھی تھے جو پاکستان میں پناہ گزینوں کے لیے قائم خصوصی سکولوں یا دیگر سکولوں میں زیر تعلیم تھے لیکن واپسی سے ان کی تعلیم ادھوری رہ گئی ہے۔

ظہیر نے بتایا کہ ان کے دو بچے پشاور میں زیر تعلیم تھے لیکن ابھی یہاں آکر ان کی تعلیم متاثر ضرور ہوئی ہے۔

’کچھ دنوں میں ہم کوشش کریں گے کہ ان کو یہاں مقامی سکول میں داخل کرائیں تاکہ وہ تعلیم جاری رکھ سکیں۔‘

انہوں نے بتایا، ’یہاں آکر مقامی لوگوں نے بہت مدد کی ہے اور اس کو ہم کبھی بھی نہیں بھولیں گے جبکہ تعلیم کے سلسلے میں بھی افغان طالبان کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے تاکہ بچوں کا وقت ضائع نہ ہوں۔‘

ظہیر نے بتایا کہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کو تھوڑا وقت دینا چاہیے تھا تاکہ درست طریقے سے افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجا جا سکتا لیکن ایسا نہ ہوسکا لیکن ابھی یہاں آکر وہ اپنی طور پر کوشش کرہے ہیں کہ زندگی دوبارہ شروع کریں۔

افغان طالبان نے واپس جانے والوں کی کیسے معاونت کی ہے؟

پاکستان چھوڑ کر واپس جانے والے افغان شہریوں کے لیے افغان طالبان نے ایک خصوصی کمیٹی قائم کی ہے، جس میں تمام متعلقہ وزارتوں کے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے۔

اس کے تحت طورخم سرحد پار کر کے افغانستان کی طرف تمام پناہ گزینوں کی پہلے رجسٹریشن اور اس کے بعد ان کو سرکاری گاڑیوں میں کیمپ پہنچانا اور جن کو اپنے علاقوں کو جانا ہوتا ہے ان کو اپنے گھروں کو پہنچایا جاتا ہے۔

پناہ گزینوں کے لیے بنایا گیا ایک اعلیٰ سطح کا کمیشن روزانہ کی بنیاد پر ایک رپورٹ جاری کرتا ہے، جس میں تما تر تفصیلات درج ہوتی ہیں۔

اسی کمیٹی کی رپورٹ ( جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) کے مطابق واپس جانے والے پناہ گزینوں کو موبائل سم کارڈ پہلی فرصت میں دی جاتی ہے تاکہ رابطے میں ان کو آسانی ہوں۔

رپورٹ کے مطابق اسی طرح فی خاندان دس ہزار افغانی (تقریباً 40 ہزار پاکستانی روپے) دیے جاتے ہیں۔

چونکہ سردی ہے تو اسی وجہ سے کمبل اور مرد و خواتین کو جیکٹس بھی فراہم کی جاتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جو لوگ طورخم سے اپنے علاقوں میں جانا چاہتے ہیں تو ان کو افغان طالبان کی جانب سے گاڑی کا کرایہ بھی دیا جاتا ہے۔

یہی کمیشن واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کی تعلیمی قابلیت، پیشہ اور دیگر تفصیلات بھی ریکارڈ کر رہے ہیں اور کمیشن کے مطابق اس کے پیچھے مقصد یہ ہے، کہ سرکار کی جانب سے ان کے لیے نوکریوں کا بندوبست ممکن کیا جا سکے۔

رپورٹ کے مطابق جن کیٹیگریز میں ان کے ریکارڈ مرتب کیے جاتے ہیں، ان میں عالم، ماسٹر ڈگری ہولڈرز، ڈاکٹرز، مزدور، وکلا اور دیگر پیشوں کے لوگ شامل ہیں۔

افغانستان کے سماجی کارکن کیا کہتے ہیں؟

ذاکر کوٹوال افغانستان میں سماجی کارکن ہیں اور زیادہ تر تعلیم کے میدان میں کام کرتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو افغانستان سے فون پر گفتگو میں بتایا: ’پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاں تک ہم نے دیکھا تو افغان طالبان کی جانب سے واپس آنے والے پناہ گزینوں کی جتنی ممکن تھی، مدد کی ہے اور اس کو سراہا بھی گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ چونکہ بہت بڑی تعداد میں افغان پناہ گزین واپس آئے ہیں، تو مشکلات بہت ہوں گی کیونکہ ان افغان پناہ گزینوں کو ایک نئی زندگی شروع کرنی ہے اور اس کے لیے افغان طالبان کو مزید کام کرنا ہوگا لیکن ابھی چونکہ واپسی کا سلسلہ شروع ہے تو وہ ایمرجنسی امداد میں مصروف ہیں۔

ذاکر نے بتایا، ’ان پناہ گزینوں کو کاروبار، تعلیم، معاشی مسائل اور دیگر مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کے لیے اب امارت اسلامی کو مزید کام کرنا ہوگا۔ کیمپ میں جہاں تک ہم نے دیکھا ہے تو کیمپ میں پناہ گزینوں کو تمام تر سہولیات فراہم کی گئیں تھیں۔‘

اسی طرح ذاکر نے بتایا کہ مقامی سطح پر جو ہم نے دیکھا ہے تو مقامی لوگوں نے ان پناہ گزینوں کا اپنے علاقوں میں استقبال کیا ہے اور ان کا مقامی سطح پر کھانے وغیرہ کا بندوبست بھی کیا گیا ہے کیونکہ یہ یہاں کی ثقافت بھی ہے اور مقامی لوگوں کی جانب سے ان لوگوں کی خوب مہمان نوازی کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا