افغان پناہ گزینوں کو نکالنے کے فیصلے پر سینیٹ میں بحث

سینیٹ میں پیر کو ہونے والے اجلاس میں بعض سینیٹ ارکان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

کراچی کے ایک پولیس سٹیشن میں آٹھ نومبر 2023 کو افغان برقع پوش خواتین پناہ گزین اپنے ڈیٹا کی تصدیق کے بعد نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی وین سے باہر نکل رہی ہیں جبکہ دیگر افراد قطار میں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں (اے ایف پی/ آصف حسن)

پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ میں پیر کو ہونے والے اجلاس میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں خاص طور پر افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنے پر بحث ہوئی ہے جہاں سینیٹ ارکان نے حکومت سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

نگران حکومت کے فیصلے کے بعد پاکستان سے غیرقانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے تاہم دوسری جانب پاکستان کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

سینیٹ میں پیر کو ہونے والے اجلاس میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’سعدیہ عباسی نے کہا ہے کہ افغانوں سے چیزیں چھینی جا رہیں ہیں یہ دکھ کی بات ہے۔‘

اسحاق ڈار نے کہا کہ ’حکومت یقنی بنائے کہ ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہیے، انہیں (افغانوں) عزت دار طریقے سے نکالیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’غیرقانونی پناہ گزینوں کو نہ نکالنے کی کوئی حمایت نہیں کرتا مگر ان کی جو چیزیں ہیں انہیں ساتھ لے جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘

ساتھ ہی اسحاق ڈار نے سوال بھی اٹھایا کہ ’کس نے کہا تھا کہ کابل میں طالبان کو انگیج کریں، جیلوں میں موجود سخت دہشت گردوں کو چھوڑیں؟‘

اسحاق ڈار نے اس بارے میں مزید کہا کہ ’ہماری غلطی ہے کہ ہم نے سخت دہشت گردوں کو چھوڑا۔ جنہوں نے ایسا کیا انہیں بلا کر پوچھا جائے، ٹی وی پر بلا کر ان سے معافی منگوائی جائے۔‘

سینیٹ اجلاس میں بحث کے دوران سینیٹر شفیق ترین نے حکومت سے افغانوں کو ملک سے نکالنے کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’افعانوں کی زبرستی پکڑ دھکڑ شروع ہے، ایک خوف کی فضا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سردی میں افغانستان جا کر یہ عورتیں بچے کیا کریں گے؟‘

اس موقع پر سینیٹر اور نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’پناہ گزینوں کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن نہیں بلکہ کریک ڈاؤن غیر قانونی طور پر مقیم ایلیئنز کے خلاف ہے۔‘

نگران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’آج تک تین لاکھ افغان شہری واپس جا چکے ہیں۔ افغانستان میں بھی غیر ملکیوں سے کاغذات مانگے جاتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’واپس جانے والے افراد کو ہر ممکن امدداد فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ افغان تارکین وطن کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔‘

جبکہ طاہر بزنجو نے کہا کہ ’اقوام متحدہ اور دنیا کی انسانی حقوق کی تنطمیں بھی افغانوں کی واپسی پر توجہ دے رہی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طاہر بزنجو نے کہا کہ ’پاکستان کی برسوں پرانی افغان پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ پاکستان کو نئی افغان پالیسی چاہیے۔‘

سینیٹر مشتاق احمد نے سینیٹ اجلاس میں بات کرتے ہوئے سخت موقف اختیار کیا اور کہا کہ ’خارجہ پالیسی تو دوست بنانے کے لیے ہوتی ہے، یہ تو آپ دشمن بنا رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس اقدام سے نفرت بڑھے گی، آپ بغیر نوٹس پلان کے افغانوں کو باہر نکال رہے ہیں۔‘

پاکستان کی نگران حکومت نے اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی جا رہی ہے تاکہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے ملک واپس لوٹ جائیں۔

پاکستان کی حکومت کے احکامات کی روشنی میں افغان پاشندوں سمیت ملک سے تمام غیر قانونی طریقے سے مقیم غیر ملکیوں کا انخلا جاری ہے لیکن جس اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے ممکن ہے کہ تمام غیرملکی افغان پاشندوں کو نکالنے میں تقریباً نو مہینے کا عرصہ لگے گا۔

خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق 17 ستمبر سے نو نومبر تک براستہ طورخم اور وزیرستان کا افغانستان سے متصل بارڈر انگور اڈہ کے راستے 1 لاکھ 97 ہزار سے زائد افغان باشندے افغانستان جا چکے ہیں۔

اسی طرح بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے مطابق نو نومبر تک 80 ہزار افغان باشندے واپس جا چکے ہیں جس میں 26 ہزار صوبہ سندھ سے بھی شامل ہے اور یہ اعدادوشمار تین نومبر کو مجموعی طور پر 50 ہزار تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست