پاکستان کی معروف کتھک ڈانسر اور سماجی کارکن شیما کرمانی کا کہنا ہے کہ ’فلسطین میں نسل کشی کی جا رہی ہے، ایسے میں آپ ماحولیاتی تبدیلی کی بات کیسے کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے یہ بات انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔
شیما نے کہا کہ وہ ظلم کے خلاف اپنے فن کے ذریعے آواز بلند کرتی رہی ہیں اور گذشتہ چھ سالوں سے عورت مارچ کے ذریعے حقوق نسواں کے لیے مہم بھی چلا رہی ہیں۔
انہوں نے 17 نومبر، 2023 کو کراچی میں برطانوی ڈپٹی ہائی کمیشن میں کنگ چارلس سوم کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت کی، جس کا موضوع ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق پاکستان کو درپیش خطرات تھا۔
اس تقریب کے دوران سفارت کار کی تقریر کے دوران انہوں نے نعرہ لگایا ’سیز فائر ناؤ‘۔
برطانوی ہائی کمیشن کے ترجمان نے اس واقعے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان کو 18 نومبر کو بتایا تھا کہ ’ہمیں افسوس ہے کہ ایک مہمان کی وجہ سے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر کی پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ایک اہم تقریر کو روکنا پڑا۔‘
ترجمان کے مطابق: ’ایک مہمان کو چیخ کر خلل ڈالنے سے منع کیا گیا، مگر اپنی مرضی سے انہوں نے رخصت لی اور بعد میں ہائی کمیشن کے عملے سے معذرت کی۔‘
شیما کرمانی نے نعرہ کیوں لگایا؟
شیما نے بتایا کہ ’میں یہ سوچ کر نہیں گئی تھی کہ وہاں نعرہ لگاؤں گی لیکن میں وہاں جا کر اس سوچ میں مبتلا ہو گئی کہ دن رات غزہ میں بمباری ہو رہی ہے روزانہ سوشل میڈیا فلسطین کے معصوم بچوں کی، جوانوں کی، موت اور بربادی کی ویڈیوز آ رہی ہیں اور ہم تقریبات میں مصروف ہیں، فلسطین میں نسل کشی کی جا رہی ہے، آپ ماحولیاتی تبدیلی کی بات کیسے کر سکتے ہیں۔
’میں نے غیر ارادی طور سے فلسطین میں جنگ بندی کے حوالے سے دو چار بار یہ نعرہ لگایا کہ ’سیز فائر ناؤ‘ جس کے بعد وہاں کچھ لوگ آئے اور انہوں نے مجھے نکالنے کی کوشش کی جس پر میں نے انہیں کہا کہ آپ مجھے ہاتھ نہیں لگائیں گے میں خود چلی جاؤں گی۔‘
آپ کلایمیٹ میں خون پھیلا رہے ہیں
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’فلسطین کے مسئلے پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ مجھے دکھ ہے کہ کوئی غزہ کے لوگوں کے حق میں بات کیوں نہیں کر رہا، اقوام متحدہ بھی خاموش ہے انسانیت کہاں گئی لوگوں میں؟
’میں سمجھتی ہو کہ سب کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اگر کوئی اس مسئلے پر بات نہیں کر رہا، میری نظر میں وہ قاتل ہے۔‘
وہ سمجھتی ہیں کہ ’اس وقت نہ ماحولیاتی تبدیلی پر تقریبات کی ضرورت ہے نہ COP2 کی ضرورت ہے نہ ہی کسی بینالے کی، اس وقت تمام تقریبات کا بائیکاٹ کر کے صرف فلسطین پر بات ہونی چاہیے۔
’آپ ماحولیاتی تبدیلی کی بات کیسے کر سکتے ہیں جب آپ نے جنگ کی صورت پیدا کی ہوئی ہے۔ وہاں (غزہ میں) آپ فاسفورس بم بھی پھینک رہے ہیں، آپ لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں تو آپ تو کلائمیٹ میں خون پھیلا رہے ہیں۔‘
کوئی مجھے تقریب میں نہ بلائے، لیکن میری آواز کوئی نہیں دبا سکتا
ان کا کہنا تھا کہ ’شاید کوئی مجھے کسی تقریب میں نہ بلائے لیکن میں اپنے فن کے ذریعے سے فلسطین پر ہونے والے مظالم پر روشنی ڈالتی رہوں گی کیوں کہ کوئی بھی مذہب انسانیت پر ظلم کا سبق نہیں دیتا میں ایک ایکٹوسٹ ہوں اور میں تشدد اور ظلم کے خلاف اپنے مقصد پر ڈٹی رہوں گی۔‘