پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے حکم اور عمران خان کی ’ہدایت‘ پر انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کروانے کے لیے حکمت عملی بنانا شروع کر دی ہے۔ اس انٹرا پارٹی الیکشن میں عمران خان کی جگہ بیرسٹر گوہر علی خان چیئرمین پی ٹی آئی کے امیدوار ہوں گے۔
تاہم اس معاملے پر پارٹی کے بعض حلقوں کے اختلافات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اختلاف کرنے والوں کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے امیدوار کا اعلان کور کمیٹی کی بجائے عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کرنے والے وکلا کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے مرکزی نائب صدر شیر افضل مروت کے مطابق ’تمام ابہام دور کیے جا چکے ہیں۔ ہم انٹرا پارٹی انتخابات جو دو دسمبر کو ہونے ہیں ان کے لیے مکمل تیار ہیں۔‘
شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ ’اس بار پہلے کی نسبت طریقہ کار مختلف ہوگا۔ دن کم ہونے کے باعث مرکزی اور صوبائی عہدوں پر الیکشن ہوگا۔ اس کے بعد ملک بھر میں پارٹی کنونشن شروع کیے جائیں گے جو باقائدہ عام انتخابات کی مہم ہوگی۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین ایڈووکیٹ کے مطابق ’چیئرمین کے طور پر بیرسٹر گوہر علی خان کی نامزدگی پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، صرف ان کے کور کمیٹی کے ذریعے اعلان نہ ہونے پر تحفظات تھے جو دور کر دیے گئے ہیں۔ اب ہم سب متحد ہوکر انٹرا پارٹی الیکشن کروائیں گے۔‘
اسی طرح پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب کے ترجمان شایان بشیر کہتے ہیں کہ ’ہم انٹرا پارٹی انتخاب کے لیے تیار ہیں اور اس حوالے سے مزید تیاریاں بھی جاری ہیں۔ جلد ہی الیکشن کمیٹی تشکیل دے کر انتخابی عمل پر عمل درآمد کیا جائے گا۔‘
دوسری جانب تحریک انصاف کا نظریاتی گروپ بھی متحرک ہوچکا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی صدر پنجاب سعید اللہ خان نیازی کا کہنا ہے کہ ’میں عمران خان کا چچا زاد بھائی ہوں، ہم نے مل کر پارٹی بنائی تھی تاکہ ملک میں پسے ہوئے طبقے کو پسماندگی سے نکالا جائے۔
’یہ پارٹی کسی ایک شخص کو اقتدار میں لانے کے لیے نہیں بنائی تھی۔ موجودہ قیادت کی ناقص حکمت عملی کے باعث پارٹی کا وجود خطرے میں ہے۔ ہم نے دیگر نظریاتی رہنماؤں سے مل کر پارٹی بچانے کی حکمت عملی بنانا شروع کر دی ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما اکبر ایس بابر نے نئے پی ٹی آئی چیئرمین کی تقرری مسترد اور انٹرا پارٹی الیکشن کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ الیکشن نہیں سراسر سلیکشن ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن میں اپنے آزاد مبصرین مقرر کرے۔‘
’بلا مقابلہ عہدوں پر تقرری‘ کا پلان
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدر شیر افضل مروت نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’موجودہ حالات میں تحریک انصاف کو دوبارہ پارٹی انتخابات مجبوری میں کروانا پڑ رہے ہیں۔‘
شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ ’وقت کم ہے اس لیے ہم نے دو دسمبر کو جو پارٹی انتخاب کروانے کا فیصلہ کیا ہے، اس میں چیئرمین کے امیدوار عمران خان کی منظوری سے بیرسٹر گوہر علی خان کو نامزد کیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ مرکزی عہدوں اور صوبائی صدور کا انتخاب کیا جائے گا۔‘
’یہ بلا مقابلہ انتخاب ہوگا کیونکہ پارٹی کے تمام رہنما اور کارکن چیئرمین عمران خان کی قیادت پر یقین رکھتے ہیں اس لیے ان کے تجویز کردہ امیدواروں کے مقابلے میں کوئی انتخاب میں حصہ نہیں لینا چایتا۔‘
شیر افضل کے بقول ’ہم بلا مقابلہ مرکزی عہدوں پر تقرری کریں گے۔ اس دوران کارکن متحرک ہو جائیں گے۔ اس کے بعد ہم عام انتخابات کے لیے انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کریں گے۔ اس کے لیے پہلے لاہور پھر کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں 10 ورکرز کنونشن منعقد کریں گے۔‘
پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں عمران خان کے فیصلوں پر تحفظات نہیں ہیں لیکن طریقہ کار پر اعتراض تھا جس سے ابہام پیدا ہوا۔‘
شعیب شاہین کے مطابق ’ہم چاہتے تھے کہ عمران خان کے فیصلوں کا اعلان ان سے ملاقات کرنے والے وکلا کی بجائے پارٹی کی کور کمیٹی کرے۔ ہمیں قیادت کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ اب سیاسی فیصلوں کا اعلان کور کمیٹی ہی کرے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اب انٹرا پارٹی انتخاب میں ہم سب متحد ہیں اور بلا مقابلہ عہدیداروں کو منتخب کریں گے کیونکہ یہ عارضی بندوبست کیا گیا ہے۔ یہ عہدے عمران خان کی امانت ہیں الیکشن کمیشن کی شرط پوری کرنے کے بعد جب عمران خان کے خلاف مقدمات کا فیصلہ ہوگا تو دوبارہ وہ ہی بحال ہو جائیں گے۔‘
تاہم پی ٹی آئی کے بانی رہنما اکبر ایس بابر ان سب باتوں سے اتفاق نہیں کرتے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کی قیادت میں جب بھی انٹرا پارٹی انتخاب ہوئے من پسند لوگوں کو دھاندلی سے جتوایا گیا۔ ماضی میں بھی اس معاملے میں اختلافات رہے ہیں۔
’اس بار بھی وہی کیا جا رہا ہے۔ دیگر پارٹیوں کی طرح الیکشن کی بجائے سلیکشن کی جا رہی ہے اور بلامقابلہ عہدوں پر تقرریاں کی جا رہی ہیں۔‘
اکبر ایس بابر نے مطالبہ کیا کہ ’الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مقرر کردہ مبصرین کی نگرانی میں شفاف، آزادانہ اور پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کرائے جائیں۔‘
پارٹی انتخابات کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب کے ترجمان شایان بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نئے چیئرمین کے امیدوار کی نامزدگی عمران خان کی ہدایت پر ہونے کے بعد اس بار وقت نہ ہونے کے باعث انٹرا پارٹی الیکشن پہلے کی طرح منعقد نہیں ہوسکیں گے۔‘
شایان بشیر کہتے ہیں کہ ’پارٹی کی جانب سے جو حکمت عملی بنائی گئی ہے اس کے مطابق چیئرمین کے امیدوار بیرسٹر گوہر علی خان ہوں گے، دیگر مرکزی عہدوں پر وہ اپنا پینل تشکیل دیں گے جس میں چاروں صوبوں سے صدر منتخب کیے جائیں گے وہ چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔
’اس کے بعد صوبائی صدور کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ ریجنز، اضلاع اور تحصیل کی سطح پر عہدیداروں کا انتخاب بعد میں کروا سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پارٹی آئین کے مطابق پہلے یو سی، تحصیل، اضلاع کی سطح پر انتخاب ہوتے تھے پھر وہ عہدیدار صوبائی صدور منتخب کرتے تھے، پھر نئے عہدیدار مرکزی عہدیداروں کو منتخب کرتے تھے۔
’اب انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے الیکشن کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے جس کے چیئرمین اور ممبران کے ناموں کا جمعے یکم نومبر کو اعلان کیے جانے کا امکان ہے۔ اس کے لیے حامد خان ایڈووکیٹ اور شیر افضل مروت کے نام بھی زیر غور ہیں۔‘
اس حوالے سے اکبر ایس بابر نے کہا کہ ’انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد سے پہلے ہی پارٹی چیئرمین کی طرف سے نئے چیئرمین کی نامزدگی نے پارٹی الیکشن کو محض سلیکشن کا عمل بنا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق مرکزی قیادت کا الیکشن صوبائی منتخب قیادت کی ذمہ داری ہے۔‘
ان کے مطابق ’جب تک مرکزی قیادت کے الیکشن کا الیکٹورل کالج منتخب نہ ہو تو مرکزی قیادت کا الیکشن کس بنیاد پر ہو گا؟ اب تک نہ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کا اعلان ہوا ہے، نہ یوسی، تحصیل، ڈسٹرکٹ اور صوبائی سطح پر الیکشن کا انعقاد ہوا ہے۔‘
اکبر ایس بابر کے بقول ’انٹرا پارٹی الیکشن کے شیڈول کا اعلان بھی ابھی نہیں ہوا۔ ان حالات میں مرکزی قیادت کا الیکشن محض ڈھونگ اور ناٹک کے سوا کچھ نہیں۔
’تاریخ میں شاید یہ پہلے الیکشن ہیں جہاں ووٹر لسٹ نہیں، امیدواروں کو الیکشن کے طریقہ کار کا علم تک نہیں اور اسے ’الیکشن‘ کہا جا رہا ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشن کے نام پر کاغذی کارروائی قبول نہیں، ایسے الیکشن کو نہ ہم قبول کرتے ہیں نہ کارکن قبول کریں گے نہ ہی عوام تسلیم کرے گی۔‘