العزیزیہ ریفرنس کی اپیل میرٹ پر سنیں گے: اسلام آباد ہائی کورٹ

اب عدالت طریقہ کار یا دائرہ اختیار کے معاملات کی بجائے مقدمے کے اصل نکات کی سماعت کرے گی جس میں الزام دفاع، شواہد وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف 24 اکتوبر 2023 کو اسلام آباد میں ہائی کورٹ میں پیشی کے بعد روانہ ہوتے ہوئے (فائل فوٹو/اے ایف پی)

اسلام آباد ہائی کورٹ میں العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل پر ڈویژن بینچ نے کیس میرٹ پر سننے کا فیصلہ کر لیا جبکہ العزیزیہ ریفرنس دوبارہ سماعت کے لیے احتساب عدالت کو بھجوانے کی نیب کی استدعا مسترد کر دی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اب عدالت طریقہ کار یا دائرہ اختیار کے معاملات کی بجائے مقدمے کے اصل نکات کی سماعت کرے گی جس میں الزام دفاع، شواہد وغیرہ شامل ہیں۔ کیس کی سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے جمعرات کو عدالت سے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے ایک راستہ ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ دوسرا ہائی کورٹ کو خود فیصلہ کرنے کا دیا تھا۔ اپیل میرٹ پر منظور ہوئی تو تشنگی رہ جائے گی، اگر کیس ریمانڈ بیک کیا جائے تو احتساب عدالت دوبارہ فیصلہ سنا سکتی ہے۔‘

اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ’عدالت میرٹ پر خود فیصلے کرے یا دوبارہ فیصلے کے لیے ریمانڈ کر دے، یہی دو راستے ہیں۔‘

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ ’نواز شریف کے وکیل میرٹ پر بحث کر رہے ہیں، ان کی کچھ متفرق درخواستیں بھی ہیں، یا تو یہ اپنی وہ درخواستیں واپس لیں، اس حوالے سے مریم نواز نے بھی پریس کانفرنس کی تھی، معاملہ سپریم کورٹ گیا تھا۔‘

اس پر امجد پرویز کہا کہ ’جی، جج کی وڈیو کے حوالے سے کچھ درخواستیں ہیں۔ احتساب عدالت کے جج اب اس دنیا میں نہیں رہے، اس لیے اس درخواست کی پیروی نہیں کریں گے۔‘

اس جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ ’اگر جج کا کنڈکٹ اس کیس کے فیصلے کے وقت ٹھیک نہیں تھا، بدیانت تھا تو اس کے اثرات ہوں گے، ہمیں بتائیں ان کو بطور جج کیوں برطرف کیا گیا تھا، چارج کیا تھا؟‘

اعظم نذیر تارڑ نے اس موقعے پر عدالت سے کہا کہ میرٹ پر ہمارا کیس پہلے سے بہتر ہے۔ اس سے قبل بھی دو اپیلوں پر فیصلہ اسی عدالت میں ہو چکا ہے۔‘

جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ ’آپ اس درخواست کی پیروی کریں گے تو ہم اس کو دیکھیں گے، ارشد ملک اب نہیں ہیں لیکن باقی لوگ ابھی موجود ہیں، آپ کا فیصلہ ہے کہ آپ اس درخواست کی پیروی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ ’مجھے ہدایت دی گئی ہے جج ارشد ملک ویڈیو سیکنڈل سے متعلق درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے، میں جج ارشد ملک کے حوالے سے دعا گو ہوں اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ہماری استدعا ہے کہ یہی عدالت میرٹ پر نواز شریف کی اپیل پر فیصلہ کر دے۔‘

جسٹس میاں گل حسن نے اس موقعے نواز شریف کے وکلا سے کہا کہ ’کیس اگر ریمانڈ بیک کر بھی دیتے ہیں تو نواز شریف ملزم تصور ہوں گے سزا یافتہ نہیں، ٹرائل کورٹ نے دوبارہ کیس کا فیصلہ کرنا ہو گا، اور اگر نیب کا یہی رویہ رہا تو پھر تو آپ کو مسئلہ بھی نہیں ہو گا تو آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟‘ 

عدالتی کارروائی میں آج مزید کیا ہوا؟

العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا بڑھانے کی نیب  نے بھی ایک اپیل دائر کی تھی، عدالت  نے جمعرات کے روز نے دونوں اپیلوں کو یکجا کر کے کیس سنا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن نے سماعت کی۔ 

نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’نیب نے سپریم کورٹ کے احکامات پر ریفرنسز دائر کیے جن میں ایک جیسا الزام تھا، فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو بری کر دیا تھا، ایک ہی الزام پر الگ الگ ریفرنس دائر کیے گئے، ہم نے درخواست دی تھی کہ ایک الزام پر صرف ایک ہی ریفرنس دائر ہونا چاہیے تھا، عدالت نے اس وقت کہا تھا کہ ٹرائل الگ الگ ہو رہا مگر فیصلہ ایک ساتھ سنایا جائے گا۔‘

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ ’یہ بتائیں کہ اس کیس میں الزام کیا تھا؟‘

امجد پرویز نے بتایا کہ ’اس ریفرنس میں بھی آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام تھا، اس کیس میں 22 گواہ ہیں جن میں سے اکثر ریکارڈ سے متعلق گواہ ہیں، 22 میں سے 13 گواہوں نے صرف بینکوں کا ریکارڈ پیش کیا، وہ گواہ چشم دید گواہ نہیں ہیں، پانچ گواہ سیزر میمو کے ہیں، دو گواہ کال اپ نوٹسز لے کر جانے والے تھے،  صرف دو گواہ رہ گئے، ایک محبوب عالم اور دوسرے واجد ضیا، ایک نیب کے تفتیشی افسر اور دوسرے جے آئی ٹی کے سربراہ ہیں، میں ان گواہوں کے بیانات سے کچھ حصہ عدالت میں پڑھ کر سناؤں گا۔‘

امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’جے آئی ٹی کے مطابق سعودی عرب کے حکام کو ایم ایل اے (میوچل لیگل اسسٹنس یا باہمی قانونی معاونت کا خط) بھیجا جس کا جواب نہیں آیا، پچھلے سات سالوں میں یہ موقف رہا کہ میرے والد نے العزیزیہ سٹیل ملز بنائی تھی، نواز شریف کا کبھی بھی کسی طور پر اس سے کوئی تعلق نہیں رہا، العزیزیہ سٹیل ملز 2001 اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ 2005 میں بنائی گئی، حسین نواز کی عمر اس وقت 28 سال تھی جب العزیزیہ ملز لگائی گئی، نواز شریف کا یہ کیس پچھلے کیس سے بھی بہتر ہے کہ وہ اس عرصہ میں پبلک آفس ہولڈر بھی نہیں تھے۔‘

نواز شریف اپیل کی سماعت کے موقعے پر ن لیگی رہنماؤں کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود تھے۔  آج کی سماعت میں ن لیگی اراکین کو زیادہ پاسز جاری کیے گئے جو کمرہ عدالت میں نواز شریف سے ملنے کے لیے بیتاب تھے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان