پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف ایون فیلڈ اور العزیزیہ سٹیل ملز کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیل سماعت منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی
نواز شریف کی جانب سے ایون فیلڈ اور العزیزیہ سٹیل ملز کیس میں دس اور سات سال کی سزاؤں کے خلاف اپیل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ کر رہا ہے۔
19 اکتوبر 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو ’سرینڈر‘ کرنے کے لیے حفاظتی ضمانت کی درخواست پر 24 اکتوبر 2023 تک گرفتار نہ کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
24 اکتوبر 2023 کو نواز شریف نے ہائی کورٹ میں سرینڈر کیا، نواز شریف کی گرفتاری سے روکنے کے حکم میں 26 اکتوبر تک توسیع ہوئی، ایون فیلڈ اور العزیزیہ کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی درخواستوں پر نیب کو نوٹس جاری کیے تھے۔
جبکہ 24 اکتوبر کو ہی احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں وارنٹ منسوخ کیے۔ 26 اکتوبر 2023 اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کے اعتراض نہ کرنے پر نواز شریف کی سزا کے خلاف دونوں اپیلیں بحال کی تھیں۔
پانامہ کیس سے نیب نے نواز شریف کے خلاف ریفرنسز بنائے
اپریل 2016 میں پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آیا جس کے مطابق میاں نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے متعلق دستاویزات بھی اس میں شامل تھے۔
اس کے بعد تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے پانامہ پیپرز کی بنیاد پر نواز شریف کے اثاثوں سے متعلق اور نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر دیں۔
20 اکتوبر 2016 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف پاناما کیس قابل سماعت قرار دے دیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، 20 اپریل 2017 کو پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا جس میں دو جج صاحبان کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا جبکہ تین ججوں کے فیصلے میں مشترکہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کی گئی۔
تین مئی 2017 کو پانامہ بینچ کے حکم پر چھ افراد پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، ٹیم کو دو ماہ میں تحقیقات ختم کرنے کی ہدایت دی گئی۔
10 جولائی 2017 کو پاناما کیس کی مشترکہ تحقیقات کے لیے بنائی گئی ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس کے بعد 28 جولائی2017 کو آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ سنایا۔
پانامہ کیس کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے 25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ ’نواز شریف نے ’کیپیٹل ایف زیڈ ای‘ سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے، نواز شریف عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12 کی ذیلی شق ’ٹو ایف‘ اور آرٹیکل 62 کی شق ’ون ایف‘ کے تحت صادق نہیں رہے، نواز شریف کو رکن مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دیتے ہیں، الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کرے، نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔‘
سپریم کورٹ نے فیصلے میں نیب کو نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف لندن کے چار فلیٹس سے متعلق ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا جبکہ نواز شریف، حسن اور حسین نواز کے خلاف عزیزیہ سٹیل ملز سمیت بیرونی ممالک میں قائم دیگر 16 کمپنیوں سے متعلق بھی ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں الزامات
2016 میں پاناما لیکس کے بعد نواز شریف کے خاندان سمیت ہزاروں لوگوں کی آف شور کمپنیوں کی تفصیلات سامنے آئیں، پانامہ لیکس کے مطابق لندن کے پوش علاقے’مے فیئر‘ میں واقع ایون فیلڈ فلیٹس نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیوں کی ملکیت ہیں اور ان کمپنیوں کے مالک نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز ہیں۔
یہ فلیٹس 1993 سے میاں نواز شریف کے اہل خانہ کے زیر استعمال ہیں جبکہ احتساب عدالت میں جمع کرائے گئے نواز شریف کے جواب کے مطابق ’یہ قطری شاہی خاندان کی ملکیت ہے جہاں انہوں نے 2006 تک رہائش اختیار کیے رکھی۔ چوں کہ یہ قطری شاہی خاندان اور مرحوم میاں محمد شریف کے درمیان زبانی معاہدہ تھا اس لیے اس کے دستاویزات میسر نہیں ہیں۔‘
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں دلائل دیے تھے کہ ’نواز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کے دوران حسن اور حسین نواز کے نام بے نامی جائیدادیں بنائیں، اس دوران بچے زیر کفالت تھے، بچوں کے نام 16 آف شور کمپنیاں بنائی گئیں۔
’غیر قانونی ذرائع سے حاصل شد رقم سے ان فلیٹس کو خریدا گیا ہے۔ پہلا فلیٹ 1993 میں نیسکول کمپنی نے خریدا، ایون فیلڈ ہاؤس میں مزید دو فلیٹس نیلسن کمپنی نے 1995 میں خریدے اور چوتھا فلیٹ 1996 میں نیسکول کمپنی نے خریدا۔ نیب کے مطابق فلیٹس کی قیمت لگ بھگ 13 ملین ڈالر ہے۔‘
العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں الزامات
2001 میں سعودی عرب میں العزیزیہ سٹیل ملز جلاوطنی کے دوران نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے قائم کی تھی، نیب نے اپنے ریفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ ’سٹیل ملز کے قیام اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک نواز شریف تھے جب کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نواز شریف نے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کمپنی سے بطور گفٹ 97 فیصد فوائد حاصل کیے تھے۔‘
احتساب عدالت سے سزا
آٹھ ستمبر2017 کو نیب نے سپریم کورٹ کے حکم پر نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملز، فلیگ شپ اور ایون فیلڈ ریفرنسز دائر کیے۔
26 ستمبر 2017 کو نوازشریف پہلی بار احتساب عدالت پیش ہوئے اور پھر پیشیوں کا طویل سلسلہ چلا۔ 21 فروری 2018 نوازشریف مسلم لیگ ن کی صدارت کے لیے بھی نااہل ہو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
6 جولائی 2018 میں عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں نوازشریف کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر 10 سال قید کی سزا سنائی اور معاونت پر مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کوایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کے وقت نواز شریف ملک میں موجود نہیں تھے۔ وہ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے اگست 2018 میں لندن روانہ ہوئے تھے۔
13 جولائی 2018 کو نوازشریف اور مریم نواز کو وطن واپسی پر لاہور ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا گیا۔
پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات 25 جولائی کو ہوئے تھے اور نواز شریف کو انتخابات کے بعد ضمانت ملی تھی۔
احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے 19 ستمبر 2018 کو سزائیں معطل کرکے تینوں کو ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔
عدالت نے دوران سماعت سوال اٹھایا تھا کہ ’پراسیکیوشن نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت کا تعین ہی نہیں کیا، ٹرائل کورٹ نے پورے فیصلے میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت کا ذکر کیے بغیر آمدن سے زائد اثاثوں پر سزا کیسے سنائی؟‘
احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں دسمبر 2018 میں سات سال قید اور جرمانوں کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس میں بری کر دیا تھا۔
نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کو غیر اخلاقی وڈیو اور اس کے باعث بلیک میل ہونے کا معاملہ سامنے آنے پر عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا اور برطرف جج کے بیان حلفی کو نواز شریف کی اپیلوں کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ، العزیزیہ اپیلیں
العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس کیسز میں سزاؤں کے بعد نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت کے لیے رجوع کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سال 2019 میں صحت کی بنیاد پر نواز شریف کو حکومت کی طرف سے کوئی اعتراض نہ ہونے پر چار ہفتوں کی ضمانت دی تھی تاکہ وہ اپنا علاج کروا سکیں۔
حکومت نے نواز شریف کا نام ای سی ای ایل سے نکالا جس کے بعد نواز شریف اکتوبر 2019 میں علاج کے غرض سے برطانیہ روانہ ہوئے۔ چار سال گزرنے کے باوجود نواز شریف وطن واپس نہ آئے۔
اس وقت کی اپیلوں میں عدالت کو بتایا گیا کہ اُن کی صحت ٹھیک نہیں جس پر عدالت نے اعتراض بھی کیا کہ ’مجرم وہاں بیٹھا ہنس رہا ہو گا کہ کیسے اس نظام کو چکما دے کر برطانیہ آ گیا۔‘
عدالت نے عدم حاضری پر 15 ستمبر 2020 کو نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری نکالے۔
پیش نہ ہونے پر عدالت نے سات اکتوبر 2020 کو نواز شریف کو مفرور ظاہر کرتے ہوئے اخبارات میں اشتہار چھپوانے کا حکم دیا اور اشتہاری قرار دے دیا گیا۔
24 جون 2021 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی عدم حاضری پرایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلیں خارج کرتے ہوئے کہا کہ ’فیئر ٹرائل کے بعد نواز شریف کو سزا ملی جبکہ وہ ضمانت پر لندن جا کر مفرور ہو گئے، بغیر کسی جواز غیر حاضر رہے، اپیلیں خارج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، حق سماعت کھو چکے ہیں اس لیے کسی ریلیف کے مستحق نہیں۔ گرفتاری دیں یا پکڑے جائیں تو اپیلیں دوبارہ دائر کر سکتے ہیں۔‘
مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی حد تک عدالت نے کیس کی سماعت کی، نیب کے غیر تسلی بخش ثبوتوں کے باعث مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو بری کر دیا تھا۔
قانونی ماہرین کی رائے
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مریم نواز بری ہو چکی ہیں تو نواز شریف کا کیس بھی اتنا ہی مضبوط ہے جتنا مریم نواز کا کیس تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عدالت کو فوراً انہیں ضمانت دے دینی چاہیے۔ کیوں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ہی کہہ دیا تھا کہ نیب کے کیس میں کوئی بنیاد ہی نہیں تھی۔‘
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل احسن بھون نے کہا کہ ’اس میں دو رائے نہیں کہ نواز شریف ابھی مجرم ہیں اور ان کے کیسز ختم نہیں ہوئے بلکہ دوبارہ بحال ہوئے ہیں جس کے بعد اس میں اب دلائل ہوں گے اور ظاہر عدالت جب شریک ملزم مریم نواز کو ناکافی شواہد پر بری کر چکی ہے تو وہی گراونڈز نواز شریف کے لیے بھی ہوں گے۔‘
2024 کے الیکشن پر اس کیس کا اثر
الیکشن کمیشن کے بیان کے مطابق آئندہ عام انتخابات آٹھ فروری 2024 کو ہوں گے۔ اب یہ قانونی سوال اٹھتا ہے کہ نواز شریف ابھی تک سزا یافتہ ہیں وہ عدالت سے بری نہیں ہوئے جس کی وجہ سے ان کی نااہلی برقرار ہے۔
قانون کے مطابق کوئی بھی سزا یافتہ شخص قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے قانونی معاملے پر نواز شریف کے وکیل امجد پرویز سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’کاغذات نامزدگی سے قبل ہم اپیلوں کا فیصلہ کروا لیں گے۔ یہ 2019 کی اپیلیں ہیں اس لیے رواں ماہ عدالت کو فیصلہ کر دینا چاہیے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بری ہونے کے بعد نواز شریف انتخابات لڑنے کے لیے اہل ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کی تھی کیوں کہ الیکشن ایکٹ ترمیم کے بعد نااہلی کی مدت پانچ سال ہے جو گزر چکی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اہلیت کے لیے کسی فورم پر جانے کی ضرورت ہی نہیں، جیسے ہی ہائی کورٹ فیصلہ دے گی ہم اس کے فوراً بعد کاغذات نامزدگی جمع کروا دیں گے اور اس پر قانونی اعتراض نہیں بنتا۔‘