نواز شریف کی ہائی کورٹ میں پیشی: بدنظمی، دھکم پیل

سابق وزیراعظم نواز شریف کی چار سال بعد پہلی مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیشی کے دوران بدترین بدنظمی دیکھنے میں آئی۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی چار سال بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران اسلام آباد پولیس نے انہیں سابق وزیراعظم کے پروٹوکول کے مطابق خصوصی سکیورٹی فراہم کی۔

میاں نواز شریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں لائے جانے کے بعد عدالت عالیہ کی نئی کشادہ اور بڑی عمارت میں بدنظمی دیکھنے میں آئی۔

مسلم لیگ ن کے سینکڑوں اہلکاروں کی موجودگی میں سکیورٹی اہلکار کمرہ عدالت کے باہر نظم و ضبط قائم کرنے میں ناکام رہے۔ 

نواز شریف کی آمد سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کا کمرہ عدالت مچھلی منڈی کا ماحول پیش کر رہا تھا، جہاں وکلا اور کارکنان 12 بجے سے کمرہ عدالت نمبر ایک میں کرسیوں پر براجمان تھے تاکہ نواز شریف کی آمد پر وہ ان کو دیکھ سکیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی سکیورٹی نے لاؤڈ سپیکر پر بار بار کمرہ عدالت خالی کرنے سے متعلق اعلانات کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

آخر کار سکیورٹی اہلکاروں کو ایک ایک نشست پر جا کر بیٹھے افراد کو عدالت سے باہر جانے کا کہنا پڑا تاکہ صرف خصوصی پاسز رکھنے والوں کو کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت دی جائے۔

’ایک دھکا آیا ہم تو کھڑکی سے باہر ہوں گے۔‘

اس دوران نون لیگ کے وکیل عطا تارڑ کمرہ عدالت میں اعلان کرتے رہے کہ ’ہمیں ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی جس سے ہمارے قائد کی عزت پر حرف آئے۔‘

بالآخر دو بج کر 35 منٹ پر کمرہ عدالت سے تمام افراد کو باہر نکالا گیا جس کے بعد ایک گھنٹے تک کورٹ روم نمبر ایک کے دروازے پر ایک جم غفیر کھڑا رہا۔

خواتین صحافی دھکوں سے بچنے کے لیے باہر رکھے بینچوں پر کھڑی ہو گئیں جس کی دوسری جانب شیشے کی کھڑکی تھی۔

دھکم پیل کی اس صورت حال میرے ساتھ کھڑی صحافی نے اپنے ڈر کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’ایک دھکا آیا تو ہم کھڑکی سے باہر ہوں گے۔‘

سابق وزیراعلی گلگت بلتستان خافظ خفیظ الرحمن اپنے کارکنان کے ہمراہ خواتین صحافیوں کے بینچ پر کھڑے ہو گئے اور ان کے کارکن تصاویر بنانے لگے، جس پر خواتین صحافیوں نے برہمی کا اظہار کیا اور تصاویر ڈیلیٹ کروائی گئیں۔

نیوز ون کی صحافی امبر علی نے کہا کہ ’ہم خواتین صحافی پاکستان میں غیر مہذب ماحول اور دھکم پیل میں کس مشکل سے رپورٹنگ کرتے ہیں یہ صرف ہم جانتے ہیں۔‘

منگل کی صبح سے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر ہلچل تھی۔ داخلی دروازہ، جو عموماً کھلا رہتا ہے، آج بند تھا۔

پولیس اور سکیورٹی اہلکار نام کی تصدیق اور کارڈ چیک کرنے کے بعد فیصلہ کرتے کہ کسے اندر جانے کی اجازت دی جائے اور کسے روکا جائے۔

میڈیا کی فہرستیں دروازے پر موجود تھیں، جن کے نام لکھے تھے صرف انہی کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت دی گئی۔

یہ مرحلہ یہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ کورٹ روم نمبر ایک میں داخلے کا پیلے رنگ کا کارڈ جاری کیے گئے تھے، جو صرف 30 صحافیوں اور نون لیگ کے 15 وکلا کو مل سکے تھے۔ 

دلچسپ بات یہ رہی کہ کمرہ عدالت میں داخلے کے لیے جاری کیے گئے مخصوص پیلے کارڈ کسی نے دیکھے ہی نہیں اور نون لیگی وکلا ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے کمرہ عدالت میں داخل ہو گئے، جبکہ پولیس اہلکار اس جم غفیر کے آگے بے بس نظر آئے۔

کورٹ نمبر ون کے باہر موجود سکیورٹی اہلکاروں میں سے ایک نے اپنے ساتھی کو کہتے ہوئے سنا گیا: ’ہر پیشی پر یہی حالات رہے تو پھر حاضری سے استثنیٰ ہی بہتر حل ہے۔‘

الیکشن میں حصہ لینے کے سوال پر نواز شریف مسکرائے

میں نواز شریف کو کورٹ روم نمبر ون کے عام طور پر بند رہنے اور اگلی نشستوں کے قریب کھلنمے والے دروازے سے کمرہ عدالت میں لایا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو بھی معمول کے راستے (دروازے) سے کمرہ عدالت میں لایا جاتا تھا۔ تاہم غیر متوقع بدنظمی کے باعث پچھلا دروازہ استعمال کیا گیا۔

میاں نواز شریف کو تین بج کر 35 منٹ پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے کورٹ روم نمبر ون میں لایا گیا، جبکہ مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف پہلے سے وہاں موجود تھے۔

نواز شریف کمرہ عدالت میں سامنے والی رو میں رکھی کرسیوں پر تشریف فرما ہوئے، جبکہ ان کے ساتھ ایک طرف اسحاق ڈار اور دوسری جانب خواجہ آصف بیٹھے تھے۔

ایک صحافی نے تبصرہ کیا کہ میاں نواز شریف اپنے مخصوص لباس میں ہیں، ہلکے نیلے رنگ کے شلوار قمیض پر گہرے نیلے رنگ کی واسکٹ اور گلے میں مفلر، جبکہ جلسے والے دن کے برخلاف آج کالے رنگ کا ماسک بھی آدھے چہرے پر موجود تھا۔ 

صحافیوں نے بات چیت کرنے کی کوشش کی لیکن میاں نواز شریف نے زیادہ گفتگو نہیں کی، جبکہ خواجہ سعد رفیق اور دیگر مسلم لیگی رہنما صحافیوں کو سابو وزیراعظم سے دور رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔

ایک صحافی نے دور ہونے کے باوجود نواز شریف کی طرف سوال اچھال دیا: ’کیا آپ انتخابات میں حصہ لیں گے؟‘ جس پر سابق وزیراعظم صرف مسکرا دیے۔

دوسرے سوال ہوا کہ ’ملٹری کورٹس سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ اچھا ہے؟ تو نواز شریف نے ججز کی کرسیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’کورٹ آرہی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست