سینیئر سیاسی رہنماؤں کے چھوڑنے کے بعد باپ پارٹی کا کیا مستقبل ہوگا؟

2018کے بعد تقریباً چار سال اس جماعت کا نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کی سیاست میں اہم کردار رہا جبکہ صوبے کی وزارت اعلی اس جماعت کے پاس رہی بلکہ چیئرمین سینیٹ بھی اسی پارٹی سے ہیں۔

بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے آٹھ دسمبر 2023 کو پاکستان پیپلز پارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی (عبدالقدوس بزنجو ایکس اکاونٹ)

بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کے بعد ایک اور سابق وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو چھوڑ دیا، ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انتخابات سر پر کھڑے ہیں تو اس سیاسی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا؟

جمعے کو میر عبدالقدوس بزنجو نے  پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ لاہور میں ہونے والی ملاقات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی۔ ان کے ہمراہ سابق صوبائی وزیر سکندر عمرانی، سید نظام الدین، سید حمید، نصیر احمد بزنجو، میر عبدالوہاب بزنجو نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولتی اختیار کی۔

باپ پارٹی کا قیام مارچ 2018 میں ہوا اور اس میں مختلف الارائے سیاسی شخصیات جیسے کہ موجودہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ، سابق وزرائے اعلیٰ جام کمال اور عبدالقدوس بزنجو شامل رہے۔

2018 کے بعد تقریباً چار سال اس جماعت کا نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کی سیاست میں اہم کردار رہا جبکہ صوبے کی وزارت اعلی اس جماعت کے پاس رہی بلکہ چیئرمین سینیٹ بھی اسی پارٹی سے ہیں۔

حال ہی میں دونوں سابق وزرائے اعلی یہ باپ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ پہلے جام کمال نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی اور اب عبدالقدوس بزنجو پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر سینیئر صحافی سلمان اشرف کا کہنا ہے کہ ’یہ جماعت الیکٹیبلز کا ایک گروہ تھا جو اپنے علاقوں میں قبائلی اثرورسوخ رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی اور کامیاب نہیں ہوسکتا۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ بااثر سیاسی شخصیات کے اپنے اپنے مفادات ہیں ’جس کی بنیاد پر یہ اکھٹے نہیں رہ سکتے۔‘

2018 کے عام انتخابات کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی سب سے زیادہ سیٹیں باپ پارٹی نے حاصل کیں۔ انتخابی نشان ’گائے‘ پر الیکشن لڑنے والی پارٹی نے 2018 میں براہ راست 51 حلقوں میں سے 49 حلقوں پر الیکشن لڑا اور صوبے میں سب سے زیادہ 15 سیٹیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ 

الیکشن کے بعد نو آزاد امیدوار بھی پارٹی میں شامل ہو گئے جس کے بعد بلوچستان اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد 24 ہو گئی۔

 الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی نے چار لاکھ 44 ہزار 257 ووٹ لیے۔

قومی اسمبلی کی 16 سیٹوں پر 15 امیدواروں نے الیکشن لڑا جن میں سے چار سیٹیں جیت پائے۔ اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کے انتخابات میں باپ کو تین لاکھ 18 ہزار 808 ووٹ ملے۔ 

خواتین کو ملا کر قومی اسمبلی میں باپ پارٹی کے ارکان کی تعداد پانچ ہو گئی تھی اور ایوان بالا یعنی سینیٹ کے دو انتخابات کے دوران بلوچستان عوامی پارٹی نے 13 سینیٹر منتخب کیے۔

محمد خان لہڑی باپ پارٹی کے سابق صوبائی وزیر رہے اور حال ہی میں وہ پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے ہیں۔

نصیرآباد سے تعلق رکھنے والے محمد خان لہڑی نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’اب باپ پارٹی میں کچھ رہا ہی نہیں سب سے بڑی بات یہ کہ باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) میں ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں۔ پارٹی اندرونی اختلافات کی وجہ سے بکھر گئی ہے اس لیے ہم نے عافیت سمجھی اور ن لیگ میں شامل ہو گئے۔‘

باپ ایک ایسی جماعت تھی جس نے 2018 کے الیکشن سے قبل اچانک نمودار ہو کر صوبے میں ن لیگ کی حکومت گرا دی اور الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی اتحادی بن کر صوبے کی وزارت اعلی حاصل کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کوئی نیا معاملہ نہیں، بلوچستان عوامی پارٹی کے بیشتر ارکان والد اور بیٹی (نوازشریف۔مریم نواز) اور باپ بیٹے (آصف زرداری۔بلاول بھٹو) کے صرف آنے کا ہی انتظار کر رہے تھے، اور باپ پارٹی کی اکثریت ن لیگ اورپیپلز پارٹی میں شامل ہو گئی۔‘

کوئٹہ کے اس سردموسم میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ حال ہی میں مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والوں میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان، سینیئر سابق وزیر نور محمد دمڑ، سردار عبدالرحمٰن کھیتران، محمد خان لہڑی، سردار مسعود لونی، ربابہ بلیدی، شعیب نوشیروانی، میر عاصم کرد گیلو، نوابزادہ جنگیز مری اور دوستین ڈومکی شامل ہیں۔

ان میں سے ربابہ بلیدی خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہوئی تھیں۔ کچھ ماہ قبل بلوچستان عوامی پارٹی سے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے میر سلیم خان کھوسہ اور میر فائق جمالی بھی مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والے ہیں۔

اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی میں سابق وزیراعلیٰ میرعبدالقدوس بزنجو، میر سکندر عمرانی سمیت سات الیکٹیبلز شامل ہو گئے۔

اس سلسلے میں جب باپ پارٹی کی بچے ہوئے ارکان کے نو منتخب صدر نوابزادہ میر خالد مگسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بلوچستان عوامی پارٹی قائم و دائم رہنے کے لیے بنی ہے، پارٹی میں ناراض لوگوں سے بات چیت کے لیے دروازے کھلے ہیں جو لوگ پارٹی چھوڑ کر گئے ہیں وہ ضرور اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے۔‘

انہوں نے کہا ہے کہ عام انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد ’پارٹی پوری آب و تاب کے ساتھ انتخابی میدان میں نظر آئے گی۔‘

لیکن بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور باپ کے سابق صدر میر عبدالقدوس بزنجو پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ’اب بلوچستان عوامی پارٹی میں کچھ رہا ہی نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کے کوئٹہ میں تاریخی جلسے سے  ثابت ہو گیا کہ بلوچستان کے عوام کی امیدیں پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی اچھی پوزیشن کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔‘

2002 کے عام انتخابات سے سیاسی منظر نامے پر نمودار ہونے والے عبدالقدوس بزنجو دو بار بلوچستان کے وزیراعلی رہ چکے ہیں۔

عبدالقدوس بزنجو 2013 میں مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تاہم بعد میں وہ مسلم لیگ ن کا حصہ بنے۔

سال 2018 کے اوائل تک مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف بغاوت تک اسی کا حصہ رہے بعد میں جب بلوچستان عوامی پارٹی بنی تو وہ اس کا حصہ بن گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست