پولیس کا نام ’غنڈہ بریگیڈ‘ سے بدل دیا جائے تو کیا حرج ہے؟

ایک بات ہویدا ہے کہ پنجاب میں سیاست دان بغیر ِتفریق، ایک جیسا ماینڈ سیٹ رکھتے ہیں۔ پولیس میں اصلاحات انہیں کبھی نہیں بھاتیں۔

پولیس میں  تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسے سینکڑوں واقعات سالانہ رپورٹ ہوتے ہیں۔  (اے ایف پی)

ماڈل ٹاؤن  کے قاتلوں کی کوئی خبر؟ ساہیوال میں بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ  کے بدن چھلنی کرنے والوں کے ساتھ ریاست نے کیا سلوک کیا؟ پولیس مقابلوں سے شہرت پانے والے ایک صاحب ملیر میں ہوا کرتے تھے، چشم ِفلک نے دیکھا کہ ریاست اس کے سامنے دست بستہ کھڑی رہی۔ ایوانِ عدل سے مظلوم انصاف نہ پاسکے۔ آج کل وہ صاحب کہاں ہیں؟

اپنی طرز کے یہ واقعات دو مختلف حکومتی ادوار میں ہوئے، لیکن نتیجہ ایک سا ہے۔ فریقین میں ایک طرف ریاست تھی اور دوسر ی طرف مظلوم شہری۔ ریاست اور اس کے باسیوں کے درمیان ایک میثاق ہے۔ ریاست شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کا  بندوبست کرتی ہے مگر ہمارے ہاں اس بندوبست کے لیے شہری تاوان ادا کرنے کے بعد بھی خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔

ذہنی معذور صلاح الدین کے قتل سے آج ریاست اور شہریوں کے مابین یہ میثاق ننگ دھڑنگ سرِ بازار جھومر ڈال رہا ہے۔ لکھ رکھیے، کسی کے خلاف کچھ نہیں ہوگا، کوئی ذمہ دار انجام کو نہیں پہنچے گا۔ معمول کی محکمانہ کارروائی ہوگی اور فائل بند کر دی جائے گی۔

پولیس میں اس طور کا تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسے سینکڑوں واقعات سالانہ رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس کام کے لیے باقاعدہ ٹارچر سیل بنے ہوئے ہیں۔ پولیس کا یہ وطیرہ بھی نیا نہیں ہے۔گلی و کوچے کا بچہ میں پولیس کے رویے اور اندازِ تفتیش سے آگاہ ہے۔ وہی حضرت میر نے جو کہا۔۔

؎  پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کہنے کو تو  ہمارے آئین کے آرٹیکل 4 اور 25 میں قانون کو ہر کس و ناکس کے ساتھ یکساں سلوک کا پابند کیا گیا ہے۔ جرائم کے انسداد اور تفتیش کے ساتھ ساتھ، پولیس شفاف عدالتی کارروائی اور از روئے ضابطہ قانونی عمل کے بنیادی حق کے تحفظ میں بھی بنیادی کردار ادا کرتی ہے، جس کی ضمانت دستور کی شق 10 الف فراہم کرتا ہے۔ صد افسوس کہ ہمارے ہاں پولیس ایسے جرائم کی مرتکب ہے جن کا سدِ باب کرنا ان کا فرضِ منصبی ہے۔

ہمارے ہاں پولیس کا نام ’غنڈہ بریگیڈ‘ سے بدل دیا جائے تو کیا حرج ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں پولیس اصلاحات پر کام نہیں کیاگیا۔ گذشتہ چھ دہائیوں میں پولیس اصلاحات پر دو درجن سے زائد رپورٹس جاری ہو چکی ہیں۔ کم نصیبی کہ ان میں سے کسی کی بھی تجاویز پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ پولیس بےلگام تھی اور ہنوز بےلگام ہی ہے۔ سیدھے سبھاؤ، حکومت، جسے پولیس کے مورال کی کوئی فکر ہے نہ خاک نشینوں سے کوئی سروکار۔

تحریک انصاف انتخاب کے پنڈال میں تبدیلی کا نعرہ لگا کر برسرِ اقتدار آئی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ایک ایسے شخص کو دان کر دیا گیا جس میں نہ اہلیت تھی اور نہ انتظامی تجربہ۔ عثمان بزدار ایک سال بعد بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے شروعات کی تھیں۔ صوبے کا وزیراعلیٰ انتہائی سطحی ذہنیت اور نااہل آدمی ہے۔ ایسے ہی جیسے کسی کوچ بان کو ہوائی جہاز سونپ دیا جائے۔

کے پی میں پولیس اصلاحات کا ڈول ڈالنے والے آئی جی ناصر درانی کو انتخابی مہم کے دوران ’پوسٹر بوائے‘ کے طور پر پیش کر کے کریڈٹ لیا گیا۔ پنجاب میں حکومت ملتے ہی، انہیں اصلاحات کی ذمہ داری سونپی گئی پھر جلد ہی ان کو چلتا کیا۔ اس کی کوئی قابلِ ذکر توجیہ حکومت پیش نہیں کرسکی۔ انہیں کیوں جانا پڑا؟ اس راز سے درانی صاحب ہی پردہ اٹھائیں تو عقدہ کھلے!

ایک بات ہویدا ہے کہ پنجاب میں سیاست دان بغیر ِتفریق، ایک جیسا ماینڈ سیٹ رکھتے ہیں۔ پولیس میں اصلاحات انہیں کبھی نہیں بھاتیں۔ پولیس کو سیاسی اثرورسوخ سے آزاد کرنا کسی سیاست دان کو قبول نہیں ہے کیونکہ پولیس سیاست دانوں کی آلہ کار ہے۔ انہیں اپنے ڈیرے آباد رکھنے ہیں۔ گاؤں ہو یا شہر، پولیس عوام کی دیکھ بھال کی بجائے اشرافیہ کی خدمت گزاری میں جتی ہوئی ہے۔ ہر حکومت کے سامنے کئی ’ٹیسٹ کیس‘ آتے ہیں، جہاں حکومت کو استقامت دکھانی ہوتی ہے، عوام کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوتا ہے، سانحہ ساہیوال تحریک انصاف کی حکومت  کے لیے ٹیسٹ کیس تھا مگر اس سانحےحکومت نے جیسا ردعمل دیا اس سے ظاہر ہے کہ یہ نظام پرانی روش پر قائم ہے اور یوں ہی چلتا رہے گا۔

’کچھ لو کچھ دو‘ کا آزمودہ نسخہ ہی واحد ترجیح ہے۔ چوہدری برادران جو کبھی عمران خان کی نظر میں ڈاکو تھے، آج راج دھانی میں برابر کے حق دار ہیں، کمزور ترین وزیر اعلیٰ کا سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے بعد گجرات کے چوہدری اٹھا رہے ہیں۔ پولیس میں اعلیٰ عہدوں پر تعیناتیوں کے پروانے وہاں سے جاری ہوتے ہیں۔ اس سب کے باوجود، کوئی سمجھے کہ پنجاب پولیس بہتر ہوجائے گی، دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے۔

صلاح الدین ایسے کئی  بےگناہ، سرکاری کارندوں کے تشدد سے جان سے جاتے رہیں گے۔ ریاست محض تماشا دیکھے گی۔ وزیر اعظم سے لے کر وزراء تک عمل سے تہی داماں  البتہ جملے بازی میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ حکومت کا دامن صدچاک ہے، جنہوں نے بخیہ گری کا خواب دکھایا تھا وہ خود اسے تار تار کرنے کے درپہ ہیں تو پھر ریاست کے دامن صد چاک کی بخیہ گری کون کرے گا؟؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ