انڈین سپریم کورٹ کا فیصلہ ’جوتے کی نوک‘ پر: نگران وزیراعظم

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا: ’مقبوضہ (انڈیا کے زیر انتظام) کشمیر میں جو رہائشی ہیں، ہم انہیں مستقبل کے پاکستانی شہری سمجھتے ہیں، ہم اپنے شہریوں اور ان کے حقوق کی پامالی کی کسی طور پر اجازت نہیں دیں گے۔‘

15 دسمبر2023 کو نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی کابینہ کا خصوصی اجلاس (پی ایم آفس)

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے جمعے کو کہا ہے کہ پاکستان انڈین سپریم کورٹ کی جانب سے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کو برقرار رکھنےکے فیصلے کو ’جوتے کی نوک‘ پر رکھتا ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

پانچ اگست 2019 کو انڈین حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا، جس کے خلاف انڈین سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا، جس نے 11 دسمبر کو اس کیس کا فیصلہ سنایا اور آرٹیکل 370 کے خاتمے کو برقرار رکھتے ہوئے  انڈین الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ ستمبر 2024 تک جموں و کشمیر میں انتخابات کروائیں۔

جمعے کو مظفرآباد میں میڈیا سے گفتگو  کے دوران نگران وزیراعظم سے ایک کشمیری صحافی نے سوال کیا کہ انڈین حکومت کے اس متنازع فیصلے کے بعد پاکستانی حکومت کیا سفارتی اقدامات اور ردعمل دینے جا رہی ہے؟

جس پر نگران وزیراعظم نے جواب دیا کہ ’کسی صورت میں مقبوضہ (انڈیا کے زیر انتظام) کشمیر کا یکطرفہ (فیصلہ)، چاہے وہ ہندوستان کی کوئی عدالت ہو یا قانون ساز اسمبلی ہو، کسی صورت قابل قبول نہیں اور نہ اس کی اہمیت ہے۔ ہم ایسے فیصلوں کو، ایسے قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، جس میں کشمیری عوام کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ حریت قیادت کو فی الفور رہا کیا جائے اور بحیثیت نگران حکومت انڈیا کی جو ذمہ داریاں ہیں، (انہیں پورا کیا جائے)۔‘

بقول انوار الحق کاکڑ: ’ہندوستان کا نہ کشمیر حصہ تھا، نہ ہے اور نہ انشا اللہ رہے گا۔ وہ اقوام متحدہ کے تحت ایک عبوری انتظامیہ کے طور پر وہاں عملدرآمد کر رہے ہیں، وہ اسی حد میں رہیں اور اسے کراس نہ کریں۔‘

نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے ہے۔ ’اس کے علاوہ نہ کوئی عدالت، نہ کوئی اسمبلی چاہے وہ کسی کی بھی ہو، وہ کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ نہ کرسکتی ہے، نہ کرے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان اس میں کوئی نیم دلانہ قسم کا ردعمل نہیں دے گا، ’ہم اگلی صفوں میں اس جنگ کو لڑیں گے۔‘

بقول نگران وزیراعظم انوار الحق: ’یہ وکالت ہماری اپنی زمین کی ہے، ہم اپنی زمین کی وکالت کر رہے ہیں۔ ہم اپنے لوگوں کی وکالت کر رہے ہیں۔ مقبوضہ (انڈیا کے زیر انتظام) کشمیر میں جو رہائشی ہیں، ہم انہیں مستقبل کے پاکستانی شہری سمجھتے ہیں، ہم اپنے شہریوں اور ان کے حقوق کی پامالی کی کسی طور پر اجازت نہیں دیں گے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’جہاں جہاں صدا بلند کرنے کی ضرورت ہو، وہ کریں گے، جہاں کارروائی کی ضرورت ہوئی، وہاں کارروائی کریں گے۔اسی سلسلے میں کشمیر کی قیادت کے ساتھ مل کر ایک طویل مشاورتی اجلاس ہوا، اس میں بہت ساری نئی اور پرانی تجاویز سامنے آئیں اور یہ فیصلہ ہوا کہ جلد ہی اسلام آباد میں دوبارہ اجلاس ہوگا بلکہ باقاعدہ ملاقاتیں ہوں گی اور سوچ بچار کے بعد آزاد (پاکستان کے زیر انتظام) کشمیر کی حکومت، پاکستان کی حکومت، حریت قیادت، کشمیری صحافی، وکیل، طلبہ اور تمام طبقات بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ لیں گے تاکہ اس کو ایک نئی جلا بخش سکیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں نگران  وزیراعظم نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر ہم بھی انڈین جارحیت کا جواب دیتے ہیں۔ ’ہمیں احتیاط سے جواب دینا پڑتا ہے کیوں کہ دونوں جانب ہمارے کشمیری عوام آباد ہیں لیکن انڈیا کے لیے آسانی ہے کہ وہ دونوں جانب کشمیریوں کو دشمن سمجھتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کشمیر کی آزادی کی تحریک زندہ ہے اور انڈیا کے لیے یہی سب سے بڑا مسٔلہ ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کو دفن کیسے کریں لیکن ان سے یہ ہو نہیں رہا۔ انڈیا کشمیریوں کو مایوس کرنا چاہتا ہے، تحریک کو جاری رکھنے کے لیے امید ضروری ہوتی ہے۔

بقول نگران وزیراعظم: ’پاکستان کے 24 کروڑ عوام اس تحریک سے وابستہ ہیں۔ یہ تحریک جاری رہے گی کیوں کہ کشمیر کی تاریخ 2019 سے 2021 تک نہیں ہے بلکہ یہ دو سو سال پر محیط تاریخ ہے، اس لیے دو سو سال کی تحریک کو تین سالوں میں ختم نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ لوگ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی جانوں کی قربانی، اور خواتین سے ریپ جیسے گھناؤنے جرائم کو فراموش نہیں کر سکتے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا سوا ارب لوگوں کا ملک، ایک بڑی معیشت اور بڑی جمہوریت ہے لیکن دنیا کشمیر پر اس کے موقف کو تسلیم نہیں کر رہی۔ یورپین یونین، امریکہ سمیت دنیا میں کسی نے کشمیر پر انڈیا کے موقف کو قبول نہیں کیا۔

ان کے بقول: ’انڈیا کی سپریم کورٹ میں چار ’بونے‘ ججز بٹھا کر فیصلہ کروانے سے کیا یہ تحریک ختم ہو جائے گی؟ اس طرح کے یک طرفہ اقدامات سے اس تحریک کو مزید تقویت ملی ہے۔اس سے خواب خرگوش میں کھوئے ہوئے لوگوں کو جھنجھوڑا گیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان