کشمیر سے متعلق انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے پر او آئی سی کی تشویش

انڈیا کی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی متنازع فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو رواں ہفتے مسترد کر دیا تھا۔

پانچ اگست 2019 کی اس تصویر میں انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے حامی اور کارکن انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے (اے ایف پی)

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے منگل کو ایک بیان میں انڈین سپریم کورٹ کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق دیے جانے والے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جس میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے والے یک طرفہ اقدامات کو برقرار رکھا گیا ہے۔

پانچ اگست 2019 کو انڈین حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔

رواں ہفتے انڈیا کی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے پانچ اگست 2019 کے متنازع فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو مسترد کر تے ہوئے انڈین الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ ستمبر 2024 تک جموں و کشمیر میں انتخابات کروائیں۔

او آئی سی کے بیان میں کہا گیا کہ تنظیم کا جنرل سیکرٹریٹ جموں و کشمیر کے مسئلے سے متعلق اسلامی سربراہی اجلاس اور او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے فیصلوں اور قراردادوں کے حوالے سے پانچ اگست 2019 کے بعد سے اٹھائے گئے تمام غیر قانونی اور یک طرفہ اقدامات کو واپس لینے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتا ہے، جن کا مقصد بین الاقوامی سطح پر کشمیر کی تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو تبدیل کرنا ہے۔

او آئی سی کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جنرل سیکرٹریٹ جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کی جدوجہد میں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے اور ’عالمی برادری سے یہ مطالبہ دہراتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)



انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوراً بعد پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ایک پریس کانفرنس میں انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر پر انڈین سپریم کورٹ کی عدالتی توثیق کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

جلیل عباس جیلانی  نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کا فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی نفی کرتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انڈیا نے بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ عالمی قانون پانچ اگست 2019 کے غیر قانونی اقدامات کو تسلیم نہیں کرتا۔ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق خود ارادیت کا ناقابل تنسیخ حق حاصل ہے۔‘

ماضی میں بھی او آئی سی کی طرف سے  انڈین حکومت سے اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے حوالے سے 2019 میں کیے گئے اقدامات کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔

آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت 

آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی حیثیت دی گئی تھی اور ریاست کے حوالے سے مرکز کے قانون سازی کے اختیارات کو محدود کردیا تھا۔ اس نے ریاستی مقننہ کو مالیات، دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں اپنے قوانین بنانے کا اختیار دیا تھا۔

آرٹیکل نمبر 35 اے

آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت آرٹیکل 35 اے 1954 میں ایک صدارتی حکم کے ذریعے متعارف کرایا گیا تھا تاکہ علاقے کے قواعد و ضوابط کی پرانی دفعات کو جاری رکھا جا سکے۔ اس آرٹیکل نے جموں و کشمیر کی ریاستی مقننہ کو علاقے کے مستقل رہائشیوں کی وضاحت کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس آرٹیکل میں وہ لوگ جو کشمیری نہیں ہیں، انہیں مستقل طور پر آباد ہونے، زمین خریدنے، مقامی حکومت کی نوکریاں رکھنے یا اس خطے میں تعلیمی سکالرشپ حاصل کرنے سے منع کیا تھا۔

اس آرٹیکل کو مستقل رہائشی قانون کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں جموں و کشمیر کی ان خواتین رہائشیوں کو بھی جائیداد کے حقوق حاصل کرنے سے روک دیا گیا تھا جو ریاست سے باہر کسی شخص سے شادی کر رہی ہوں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا