غزہ کے گرجا گھر میں پھنسے افراد کے اہل خانہ پریشان ہیں

برطانوی لبرل ڈیموکریٹ رکن پارلیمنٹ لیلیٰ موران لکھتی ہیں کہ ان کے رشتہ دار اکتوبر سے گرجا گھر میں پھنسے ہوئے ہیں اور ’گولی لگنے کے ڈر سے ایک کمرے سے دوسرے کمرے یہاں تک کہ رفع حاجت کے لیے بھی نہیں جا سکتے۔‘

برطانوی لبرل ڈیموکریٹ ایم پی لیلیٰ مورن 18 دسمبر 2023 کو وسطی لندن میں اپنے دفتر میں ایک انٹرویو کے دوران (ہنری نکولس/ اے ایف پی)

میری والدہ فلسطینی ہیں اور ہمیں بیت المقدس کا رہائشی ہونے پر فخر ہے لیکن ہمارے رشتہ دار غزہ شہر میں بھی رہتے ہیں۔ مجھے زور دینا چاہیے کہ یہ صرف مسیحی لوگوں کی فکر کرنے کی بات نہیں ہے۔ ہم سب فلسطینی ہیں۔ کسی کا کوئی بھی عقیدہ ہو، کہانی ایک ہی ہوتی ہے۔

وہ (ہمارے رشتے دار) اکتوبر سے ہولی فیملی پیرش گرجا گھر کے احاطے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ خاندان کا ایک فرد بیمار ہونے کے بعد پہلے ہی فوت ہو چکا ہے۔ وہ ہسپتال نہیں جا سکے۔ خاندان کا دوسرا فرد آلودہ پانی پینے کے بعد بیمار پڑ چکا ہے۔

دو ماہ سے زیادہ عرصے سے صورت حال خوفناک ہے۔ انسانی بحران مزید شدت اختیار کر چکا ہے لیکن حالیہ دنوں میں خطرہ اور بھی بڑھ گیا ہے۔

گذشتہ ہفتے کے دوران ہمیں چرچ کمپلیکس کے آس پاس فائرنگ کی مزید اطلاعات ملی ہیں۔ کوڑا اٹھانے والے شخص اور چوکیدار کو عمارت کے باہر گولی مار دی گئی اور ان کی لاشیں سڑک پر پڑی رہیں۔

16 دسمبر کو کمپلیکس کے اندر دو خواتین کو گولی مار دی گئی۔ ایک خاتون کو اس وقت مار دیا گیا جب انہوں نے دوسری خاتون کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کی کوشش کی۔

ایک سنائپر کی جگہ اب چار سنائپر ہیں جنہوں نے گرجا گھر کو گھیرے میں لے کر مختلف عمارتوں کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔

گرجا گھر میں پناہ لینے والے لوگ جہاں مقیم ہیں، وہاں اتوار کو سروس ہوتی ہے۔ وہ گولی لگنے کے ڈر سے ایک کمرے سے دوسرے کمرے یہاں تک کہ رفع حاجت کے لیے بھی نہیں جا سکتے۔

یقیناً وہ خوف زدہ ہیں۔ گرجا گھر میں پناہ لینے والا خاندان ہر دو دن بعد فون پر بات کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تاکہ تصدیق ہو سکے کہ وہ زندہ ہیں۔

ان کی خوراک ختم ہو رہی ہے۔ ان کے پاس مکئی کا آخری ڈبہ بچا ہے۔

پوپ کی بات ٹھیک ہے۔ عمارت میں موجود تمام افراد عام شہری ہیں۔ نہ دہشت گرد، نہ کوئی ضمنی ہدف اور نہ عسکریت پسند۔ وہ خواتین، بچے اور معذور لوگ ہیں۔ کسی کا حماس سے کوئی تعلق نہیں۔

لڑائی شروع ہونے سے پہلے چرچ میں راہبائیں، پادری اور 54 معذور افراد رہتے تھے۔ اب یہ تعداد بڑھ کر تین سو سے زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ جب تنازع شروع ہوا تو لوگوں نے یہاں پناہ لی۔

غزہ میں مسیحی برادری چھوٹی ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے کو جانتا ہے۔ میں نے چرچ کے لوگوں سے سنا ہے کہ صرف ان لوگوں کو اندر جانے کی اجازت تھی جنہیں پادری پہلے سے جانتے تھے۔

ہفتے کے اختتام پر اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے پادری کو فون کیا اور بتایا کہ دو گھنٹے فائرنگ نہیں ہو گی۔ اس سے کچھ سکون ہوا اور چرچ کے مختلف حصوں میں رہنے والے خاندانوں کو کم از کم ایک دوسرے کو ملنے اور یہ جاننے کا موقع ملا کہ وہ اب بھی زندہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن اگر آئی ڈی ایف کو اس صورت حال کا علم ہے اور اگر وہ فائرنگ روکنے کا کہہ سکتے ہیں تو وہ سنائپرز کو مکمل طور پر ہٹا کیوں نہیں سکتے؟

آئی ڈی ایف کے ترجمانوں نے فوری طور پر اس بات کی تردید کی کہ جن افراد کو گولی ماری گئی ان میں خواتین بھی شامل تھیں، لیکن ان کے بیانات غزہ شہر کے غلط حصے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

میں نے لاشوں کی تصاویر دیکھی ہیں اور عینی شاہدین کی باتیں سنی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کیا ہوا ہے۔ ویسٹ منسٹر کے کارڈینل نکولس کی بھی یہی سوچ ہے۔

ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ بین الاقوامی انسانی قوانین پر عمل جاری رہے اور جہاں خلاف ورزیاں ہوں اس کی مکمل تحقیقات کی جائے۔ میں تمام خاندانوں پر زور دیتی ہوں کہ وہ آئی سی سی (عالمی فوجداری عدالت) کو ثبوت پیش کریں، جس کے ساتھ میں رابطے میں ہوں۔

قبل ازیں اس ماہ میں نے برطانوی وزیراعظم کو خط لکھ کر ان پر زور دیا تھا کہ وہ اس تنازعے میں بین الاقوامی انسانی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزیوں کے بارے میں حکومت کے قانونی مشورے کو مکمل طور پر شائع کریں۔

برطانیہ کو اس بات کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرنا ہے کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے نظام کا احترام کیا جائے جسے ہم نے قائم کرنے میں مدد کی۔ خاص طور پر اس طرح کے خوفناک تنازعے کی صورت میں بے گناہ شہریوں کے تحفظ اور ان کی زندگیاں بچانے کے لیے۔

اسرائیل اور فلسطین کے لوگوں کو خوف سے آزاد زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ برطانیہ اور بین الاقوامی برادری میں اس کے شراکت دار پہلے کی صورت حال پر واپسی کی اجازت نہیں دے سکتے۔

اگر ہم تشدد کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے میں مدد کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ ہمارے جیسے ممالک پر منحصر ہے، جن کے خطے میں دیرینہ تعلقات ہیں اور جو اس تنازعے کی ابتدا میں پوری طرح ملوث ہیں۔ ان ملکوں کو پائیدار امن اور دو ریاستی حل میں قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔

مجھے خوشی ہے کہ حکومت کا مؤقف تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے اور اسے عملی قدم اٹھا کر حمایت کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں فوری طور پر دو طرفہ فائر بندی تک پہنچنے کی ضرورت ہے جس کا مطالبہ میری پارٹی لبرل ڈیموکریٹس کئی ہفتوں سے کر رہی ہے۔ اس کا مطلب امداد کی فراہمی اور قیدیوں کی رہائی ہے لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ سیاسی مذاکرات کی گنجائش بھی ہو۔ مذاکرات کا مقصد بالآخر سیاسی حل ہونا چاہیے یعنی حماس کی غزہ سے رخصت، دو ریاستیں اور پائیدار امن۔

یہاں تک پہنچنے کے لیے مرحلہ وار طریقہ اختیار کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان مراحل میں فائر بندی، اس میں توسیع، مستقل فائر بندی اور پھر مذاکرات۔ اس کام کے لیے بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کے دباؤ کی ضرورت ہوگی۔ خاص طور پر خلیجی اور عرب ممالک کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ خاص طور پر وہ ملک جن کے قطر میں حماس اور اس کی سیاسی قیادت کے ساتھ رابطے ہیں۔

قیام امن کبھی آسان نہیں ہوتا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں کوشش ہی نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں فلسطین اور اسرائیل کے بچوں کی خاطر ایسا کرنا ہو گا۔

لیلیٰ موران آکسفورڈ ویسٹ اور ایبنگڈن سے لبرل ڈیموکریٹ رکن پارلیمنٹ ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر