ڈیفنس کار حادثہ: ملزم کی عمر کا تعین نہ ہو سکا، متاثرین تاحال انصاف کے منتظر

متاثرہ فیملی کے سربراہ اور مدعی مقدمہ رفاقت علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملزم نے  11 نومبر کو ان کی گاڑی کو اپنی گاڑی سے ٹکر مار کر تین بچوں سمیت چھ افراد کو قتل کیا ہے۔‘

اس فائل فوٹو میں مسافر دو دسمبر 2021 کو لاہور کی مرکزی شاہراہ کے کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ (اے ایف پی/ عارف علی)

لاہور کے رہائشی علاقے ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹی فیز سیون میں گذشتہ ماہ کار حادثے میں ایک ہی فیملی کے چھ افراد کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار ملزم افنان شفقت کی عمر کا تعین نہ ہوسکا۔

متاثرہ فیملی کے سربراہ اور مدعی مقدمہ رفاقت علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملزم نے  11 نومبر کو ان کی گاڑی کو اپنی گاڑی سے ٹکر مار کر تین بچوں سمیت چھ افراد کو قتل کیا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’مقدمہ بھی ڈیفنس تھانے میں درج ہے لیکن پولیس کے تعاون نہ کرنے پر ایس ایچ او سمیت تین اہلکاروں کو معطل بھی کیا گیا۔ مگر تین بار میڈیکل بورڈ بننے کے باوجود ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا مگر ملزم کی عمر کا تعین نہیں ہوسکا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ملزم کی گرفتاری کے لیے بھی انہیں بڑی جدوجہد کرنا پڑی اب عدالتی احکامات کے باوجود ملزم کی عمر کا تعین نہیں ہو رہا جس سے کیس آگے نہیں بڑھ رہا۔ کیونکہ ملزم کے والد ملک شفقت بااثر ہیں وہ ملزم کو 18سال سے کم عمر ظاہر کر کے سزا سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

رفاقت علی کے مطابق ’پولیس حکام کو بار بار درخواست کر چکے ہیں کہ ملزم کے سکول کا ریکارڈ حاصل کیا جائے اور طبی معائنے سے عمر کا فوری تعین کیا جائے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں ملزم کی عمر 18 سال سے زیادہ ہے اس لیے اسے ایک مجرم کے طور پر سزا دی جانی چاہیے۔ گاڑی کی سائید مارنے پر تلخ کلامی کے باعث اس نے اپنی تیز رفتار گاڑی سے ہماری گاڑی کو ٹکر ماری جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ چھ بے گناہوں کا قتل ہے۔‘

تفتیشی پولیس افسر فخر بشير نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کیس کی تفتیش جاری ہے، ملزم گرفتار ہے اور جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں بند ہے۔ ان کے والد ملک شفقت ضمانت پر ہیں۔ عمر کا تعین میڈیکل بورڈ نے کرنا ہے جب بورڈ بنے گا تو عمر کا تعین ہوگا۔ ملزم کے کالج سے ریکارڈ بھی حاصل کیا جارہا ہے تاکہ عمر کا اندازہ ہو سکے۔ ہمارے بس میں جو قانونی کارروائی ہے ہم وہ کر رہے ہیں کیس عدالت میں ہے جو بھی سزا دینی ہے وہ عدالت نے دینی ہے۔‘

رفاقت علی نے کہا کہ ’پولیس کو ملزمان کی جانب سے جو ریکارڈ دیا گیا ہے اس میں عمر کم ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ہم نے پولیس سے درخواست کی ہے کہ اس ریکارڈ کی تصدیق کرائی جائے ہمیں یقین ہے یہ کم عمری ظاہر کرنےکے لیے بنوایا گیا ریکارڈ ہے۔‘

ملزم کی عمر کا تعین کرنے کے لیے اوسیفیکیشن ٹیسٹ، پولی گراف ٹیسٹ اور فوٹو گرامیٹیکل ٹیسٹ کی رپورٹ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی جانب سے پولیس کو 29 نومبر کی تاریخ کو دی گئی تھی۔

حادثے کی رات شادی سے واپسی پر ملزم افنان نے نہایت تیز رفتاری سے حسنین رفاقت کی گاڑی کو ٹکر ماری جس سے مدعی رفاقت علی کے بیٹے حسنین رفاقت، ان کی بیوی، بہو، بیٹی، نواسی، دو بچے پوتا اور پوتی جان سے گزر گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب ملزم افنان شفقت کے والد ملک شفقت نے پولیس کو موقعے پر موجود نہ ہونے کا بیان قلمبند کرایا تھا۔

پولیس کے مطابق حادثے کے دوران افنان کو پیٹ میں، اور ان کے دوست ابراہیم کو ہاتھ پر اور علی عبداللہ کو ٹانگ پر چوٹیں آئیں، حادثے میں افنان کے دوست سعد کی گردن کی ہڈی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

اس حادثے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب میں کم عمر اور بغیر لائسنس ڈرائیورز کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد لاہور سمیت پنجاب بھر میں ٹریفک پولیس نے کم عمر اور بغیر لائسنس گاڑیاں یا موٹر سائیکل چلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔

ہزاروں نوعمر لڑکوں کے خلاف کارروائی کی گئی، سینکڑوں گاڑیاں اور موٹر سائیکل بھی بند کیے گئے۔

ٹریفک پولیس کی جانب سے کارروائیاں ابھی بھی جاری ہیں مگر مدعی مقدمہ کے مطابق انہیں نظام سے ’وہ انصاف نہیں مل رہا جو ملنا چاہیے تھا پولیس کو کارروائی کے لیے بار بار ثبوت بھی ہمیں ہی فراہم کرنے پڑ رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پہلے حادثے کو ملزم کی انتقامی کارروائی ثابت کر کے 302 دفعہ کے تحت دو دن میں مقدمہ درج کرانا پڑا اور اب کم عمری کے معاملے میں بھی دفتروں کے چکر لگانے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر اعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا کہ ان کے چھ پیاروں کو بلا وجہ موت کی نیند سلانے والے ملزم کو عبرت ناک سزا دلوا کر ایک مثال قائم کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان