الیکشن 2024: کاغذات نامزدگی کے خلاف اپیلوں کا عمل آج سے شروع

کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد کیے جانے کے خلاف اپیلیں جمع کرانے کا عمل بدھ تک جاری رہے گا جن پر فیصلے 10 جنوری 2024 تک کر دیے جائیں گے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اتوار 31 دسمبر 2023 سے عام انتخابات 2024 کے لیے کاغذات نامزدگیوں پر اپیلیں دائر کی جا سکیں گی (ریڈیو پاکستان)

پاکستان میں عام انتخابات 2024 کے لیے امیدواروں کی جانب سے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل مکمل ہو گیا ہے اور اتوار سے کاغذات نامزدگی کے منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں جمع کرائی جا سکیں گی۔

کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد کیے جانے کے خلاف اپیلیں جمع کرانے کا عمل بدھ تک جاری رہے گا جن پر فیصلے 10 جنوری 2024 تک کر دیے جائیں گے۔

امیدواروں کی ابتدائی فہرست 11 جنوری کو آویزاں کی جائے گی اور امیدوار 12 جنوری تک کاغذات نامزدگی واپس لے سکتے ہیں۔

انتخابی نشانات 13 جنوری 2024 کو الاٹ کیے جائیں گے اور عام انتخابات کے لیے پولنگ آٹھ فروری 2024 کو ہوگی۔

سیاسی رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی مسترد

عام طور پر انتخابات کے اس مرحلے میں ایسے امیدوار ہی اپیلیں کرتے ہیں جن کے کاغذات نامزدگی کسی بھی وجہ سے مسترد کر دیے جاتے ہیں۔

تاہم اسی مرحلے میں ایسے امیدواروں کے کاغذات کے بارے میں بھی اپیلیں کی جاتی ہیں جن کے کاغذات منظور ہوجانے پر اعتراض ہو۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تعینات کردہ ریٹرننگ افسران کی جانب سے امیدواروں کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق 2024 کے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند کئی سیاسی رہنماؤں کے کاغذات مسترد ہوئے ہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان سمیت کئی اہم رہنما شامل ہیں۔

لاہور اورمیانوالی سے بانی پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے۔ عمران خان کے کاغذات نامزدگی این اے 122 لاہور اور این اے 89 میانوالی سے مسترد کیے گئے۔

ریٹرننگ افسر این اے 122 کے مطابق بانی پی ٹی آئی سزا یافتہ ہیں، کاغذات نامزدگی مسترد کیے جاتے ہیں جبکہ ریٹرننگ افسر 89 کفایت اللہ نے کہا کہ این اے 89 سے بانی پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی کئی اعتراضات کے باعث مسترد کیے، ان کے کاغذات نادہندہ اور سزا یافتہ ہونے پر مسترد کیے۔

پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کے قومی اسمبلی کے تین اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے ہیں۔

اس کے علاوہ ان کے صاحبزادے زین قریشی اور بیٹی مہر بانو کے کاغذات نامزدگی این اے 150 اور 151 سے مسترد ہو گئے ہیں۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور ان کے بھتیجے راشد شفیق کے کاغذات نامزدگی این اے 57 سے مسترد کردیے گئے ہیں۔

لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 119 سے مریم نواز کے کاغذات نامزدگی منظور اور اسی حلقے سے پی ٹی آئی کی صنم جاوید کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے ہیں۔

لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 127 سے بلاول بھٹو زرداری کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے جبکہ اسی حلقے سے پی ٹی آئی کے اعجاز چوہدری کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے۔

این اے 130 لاہور سے پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین راشد کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی ٹی آئی کے رہنما جمشید دستی کے مظفرگڑھ سے دو قومی اور دو صوبائی اسمبلی کے حلقوں کےلیے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر اور رہنما پی ٹی آئی حماد اظہر کے صوبائی اسمبلی کے لیے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ این اے 58 سے ایاز امیر، این اے 59 سے چوہدری پرویز الٰہی اور ان کی اہلیہ کے کاغذات مسترد ہو گئے ہیں۔

سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں سے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے۔

علی امین گنڈاپور، شیرافضل مروت، شیر علی ارباب اور شاندانہ گلزار، مراد سعید، عاطف خان، علی محمد خان، شہرام ترکئی، اور شہریار آفریدی بھی ان پی ٹی آئی رہنماؤں میں شامل ہیں جن کے کاغذات نامزگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل گروپ کے سربراہ سردار اختر مینگل کے قومی اسمبلی کی دو اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست سے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے۔

این اے 262 پر پشتونخوا میپ کے نواب ایازجوگیزئی، پشتونخوانیشنل عوامی پارٹی کے خوشحال کاکڑ اور پی ٹی آئی کے ظہورآغا کاغذات نامزدگی مسترد ہونے والوں میں شامل ہیں۔

این اے 264 کوئٹہ سے میر خالد لانگو اور پرنس عمر احمد زئی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے۔

یہ تمام سیاسی رہنما اپنے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جانے کے خلاف آج سے اپیلیں دائر کر سکتے ہیں جن پر فیصلے کے بعد یہ رہنما امیدواروں کی انتخابی فہرست میں نام آنے پر انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست