راولاکوٹ: ذہنی پریشان لاپتہ شخص جن کے دو خاندان دعویدار تھے

پہلے رشتے داری کا دعویٰ کرنے والے مثل خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ویڈیو دیکھنے کے بعد میری والدہ کو شک ہوا تھا کہ وہ میرے لاپتہ والد ہیں جو 22 برس پہلے گھر سے نکلے تھے اور واپس نہیں آئے۔‘

تین برس بعد ٹک ٹاک کی وجہ سے مل جانے والے شخص کی راولا کوٹ میں تصویر (غلام رسول)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ میں گذشتہ دنوں ذہنی دباؤ کے شکار ایک شخص کی بازار میں گھومنے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس کے بعد دو خاندانوں نے ان کی رشتہ داری کا دعویٰ کیا تھا۔

مذکورہ شخص نے ایک خاندان کے افراد کو پہچان لیا جس کے بعد پولیس نے ان کو اس فیملی کے سپرد کر دیا۔

پہلے رشتے داری کا دعویٰ کرنے والے مثل خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ویڈیو دیکھنے کے بعد میری والدہ کو شک ہوا تھا کہ وہ میرے لاپتہ والد ہیں جو 22 برس پہلے گھر سے نکلے تھے اور واپس نہیں آئے۔

’ہم اس شخص کو دیکھنے اور ان سے ملنے راولا کوٹ آ گئے لیکن میں اس شخص کو نہیں پہچانتا تھا کیوں کہ میں صرف چھ سال کا تھا جب وہ لاپتہ ہوئے۔‘

مثل خان کا کہنا تھا: ’ہم اس امید سے آئے تھے کہ شاید وہ ہم سے باتیں کریں اور ہمیں پہچانیں لیکن ملنے کے بعد وہ صرف اردو اور ایک دوسری زبان بولتے تھے اور مسلسل ہنستے تھے۔‘

مثل خان نے مزید بتایا کہ ’میں نے اپنے چچا کو راولا کوٹ بلایا کیونکہ وہ ان کے بھائی ہیں اور وہی ان کو پہچان سکتے تھے۔‘

مثل خان اور ساتھیوں نے اس شخص کے بال بنائے اور ان کو نہلا کر صاف کپڑے بھی پہنائے لیکن کہانی میں موڑ تب آیا جب گلگت بلتستان سے کچھ لوگ اس شخص سے ملنے آ گئے۔

راولا کوٹ میں ذہنی پریشانی میں مبتلا شخص کے ساتھ موجود وہاں کے مقامی شخص پرویز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم پولیس سٹیشن میں موجود تھے کہ گلگت سے کچھ افراد آ گئے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’گلگت سے لوگ آتے ہی یہ شخص ان سے گلے مل کر رو رہا تھا اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ بلتی زبان میں باتیں کر رہے تھیں۔ ذہنی پریشانی میں مبتلا شخص نے بھی خاندان والوں کو پہچان لیا اور پولیس نے اس شخص کو اس خاندان کے حوالے کر دیا۔‘

غلام رسول لاپتہ شخص کے چھوٹے بھائی ہیں اور وہ راولا کوٹ میں اس شخص کے ساتھ موجود ہیں۔ 

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس شخص کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے، وہ ان کے بڑے بھائی ہیں جو تین سال پہلے کراچی جا کر لاپتہ ہوئے تھے۔ 

غلام رسول نے بتایا ’کراچی میں وہ کچھ دن رہے اور رابطہ ہوتا تھا لیکن بعد میں رابطہ منقطع ہوگیا اور تین سال بعد ابھی ہمیں ٹک ٹاک کی وجہ سے وہ مل گئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اب ہم گلگت جانے کی تیاری کر رہے ہیں اور دیر سے تعلق رکھنے والے خاندان کے افراد بھی ہمارے ساتھ ہی راولپنڈی تک جائیں گے۔‘

مثل خان نے بتایا کہ ’ہم نے اپنی کوشش کی اور والد کو ڈھونڈنے کی غرض سے کشمیر گئے لیکن وہ ہمارے والد نہیں تھے۔‘


مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان