جسم سے سوئیاں نکلنا جادو یا ذہنی مرض؟

پشاور کے شکیل (فرضی نام) کہتے ہیں کہ ان کے جسم سے سوئیاں نکلتی ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ یہ سوئیاں ان کے جسم میں کیسے داخل ہوئیں۔ تاہم ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اعزاز جمال کا کہنا ہے کہ شکیل ذہنی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

30 جنوری، 2023 کو پشاور میں ایک پولیس اہلکار ایمبولنس کے لیے راستہ بنا رہا ہے (اے ایف پی/ عبدالمجید)

پشاور کے شکیل خان (فرضی نام) کہتے ہیں کہ ان کے جسم سے سوئیاں نکلتی ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ یہ سوئیاں ان کے جسم میں کیسے داخل ہوئیں۔ تاہم شکیل کی طبی رپورٹس کا جائزہ لینے والے مردان میڈیکل کمپلیکس کے سائیکٹری یونٹ کے رجسٹرار ڈاکٹر اعزاز جمال کا کہنا ہے کہ شکیل ذہنی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

شکیل خان کا تعلق چارسدہ سے ہے لیکن وہ پشاور میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’اب تک 15 سرجریز کروا چکا ہوں اور مجموعی طور پر جسم سے 27 سوئیاں نکالی گئی ہیں لیکن اب بھی سوئیاں جسم میں موجود ہیں۔

’یہ پیٹ، بازوؤں اور جسم کے مختلف حصوں سے نکالی جا چکی ہیں۔ اب تک درجنوں آپریشن کروا چکا ہوں، لیکن ڈاکٹر کے پاس اس کا کوئی حل نہیں۔‘

شکیل کے مطابق ’جسم سے نکلنے والی سوئیاں سلائی مشین کی ہیں، اور اب بھی سوئیاں ان کے سینے، گردے، اور پیٹ میں موجود ہیں لیکن ڈاکٹر مزید آپریشن نہیں کر رہے۔‘

شکیل کا کہنا ہے کہ انہیں یہ مسئلہ تین سال پہلے پیش آنا شروع ہوا اور ابتدا میں کچھ آپریشنز کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں ہسپتال آنے سے منع کرتے ہوئے کسی نفسیاتی ماہر سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔

ماضی میں ایک فیکٹری میں محنت مزدوری کرنے والے 34 سالہ شکیل کا کہنا ہے کہ وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے روزی روٹی کمانا مشکل ہو چکا ہے۔

ڈاکٹروں کے مشورے پر وہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور گئے جہاں پر ان کا علاج شروع ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں نے تقریباً 10 دن وہاں گزارے لیکن ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ہم آپ کا علاج کسی دوائی سے نہیں بلکہ باتوں سے (کونسلنگ) سے کریں گے لیکن میں سمجھتا تھا کہ میرا یہ علاج نہیں ہے کیونکہ میں خود سوئیاں جسم میں داخل نہیں کرتا تھا لیکن ڈاکٹرز مجھے کہتے تھے کہ یہ آپ خود کرتے ہیں۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ ان پر کوئی جادو ہوا ہے جبکہ ڈاکٹر اس خیال سے متفق نہیں۔

ڈاکٹر اعزاز جمال کے مطابق یہ ایک ذہنی بیماری ہے جس کا نام ’فیکٹیشس ڈس آرڈر‘ ہے اور اس کا جادو ٹونے سے کوئی تعلق نہیں۔

امریکہ کے کلیو لینڈ کلینک کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں ایک فیصد مریض فیکٹیشس ڈس آرڈر کا شکار ہیں۔

فیکٹیشس ڈس آرڈر کیا ہے؟

ڈاکٹر اعزاز نے، جنھیں اس بیماری میں لاحق مریضوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے، بتایا کہ اس مرض میں مریض مختلف طریقوں سے خود کو زخمی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ایسے مریض پہلے اپنے جسم میں سوئیاں داخل کرتے ہیں لیکن ان کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ ایسا کر رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر اعزاز  کے مطابق: ’ایسے مریض خود کو بیمار بنانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو ڈاکٹر یہ باور کرا سکے کہ وہ بیمار ہیں۔

’یہ کوئی نئی بیماری نہیں اور بہت عام بیماری ہے، ایسے کیس مردان میڈیکل کمپلیکس میں بھی آتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’حالیہ دنوں میں ایک بچے کو لایا گیا جس نے خود کو بلیڈ سے زخمی کیا تھا، سوئیوں والا ایک مریض بھی لایا گیا تھا، جس کے اہل خانہ نے بتایا کہ وہ جسم میں سوئیاں داخل کر کے خود کو زخمی کر لیتے ہیں۔‘

ڈاکٹر اعزاز  کے مطابق ’ایسے مریضوں کو کسی عامل کے پاس لے کر جانے سے بہتر ہے کہ ان کو مستند ماہر نفسیات کے پاس لے جائیں تاکہ بروقت علاج ممکن بنایا جا سکے۔‘

کلیو لینڈ کلینک کا کہنا ہے کہ ’اس مرض میں مبتلا لوگ توجہ اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں جس میں خود کو زخمی کرنا بھی شامل ہے۔‘

کلیو لینڈ کلینک کے مطابق ’اس بیماری کے دو قسمیں ہیں جس میں ایک میں مریض خود کو مختلف حربے استعمال کر کے یا خود کو زخمی کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسری قسم میں اہل خانہ (زیادہ تر والدین) اس غرض سے گھر کے لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں تاکہ دوسرے لوگوں کی توجہ حاصل کر سکیں۔‘

بیماری کی علامات

کلیو لینڈ کلینک کے مطابق ایسے مریض چاہتے ہیں کہ وہ ہسپتال جائیں اور وہ تشخیصی ٹیسٹ کے منفی ہونے کے باوجو خود میں دیگر علامات ڈھونڈتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کلینک نے مزید بتانا ہے کہ ایسے مریض ہمیشہ مزید طبی ٹیسٹ کروانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

کلینک کے مطابق ایسے مریض اپنے اہل خانہ کو ڈاکٹروں سے دور رکھتے ہیں اور خود بھی سائکالوجیکل اور سائکاٹریک مشورے سے دور بھاگتے ہیں اور وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہوتے وقت زیادہ بیمار ہونے کے بہانے بناتے ہیں۔

بیماری کی وجوہات

ڈاکٹر اعزاز نے بتایا کہ ’اس بیماری کے شکار افراد کے ساتھ تشدد، ٹراما، سماجی طور پر اکیلا پن، ابتدا سے کسی شدید بیماری کا شکار یا پروفیشنل ہیلتھ میں تجربہ رکھنے کی ہسٹری ہو سکتی ہے جبکہ کسی بھی پریشانی اور ٹراما کی وجہ سے یہ بیماری شدت اختیار کر سکتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’شدید پریشانی یا اچانک صدمے سے ٹراما میں جانے والے افراد اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد وہ خود کو بیمار تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں اور جب لوگ توجہ نہیں دیتے، تو خود کو زخمی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔‘

امریکہ کے سرکاری صحت کے ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز پر موجود اس بیماری پر لکے گئے تحقیقی مقالے کے مطابق اس تحقیق کے لیے لیے منتخب کیے گئے 20 افراد میں سے 60 فیصد کو بچپن میں کسی قسم کی شدید بیماری لاحق ہوئی تھی۔

تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ان افراد میں 80 فیصد سے زائد ایسے تھے جنہوں نے انٹریو میں بتایا کہ ان کا بچپن اچھا نہیں گزرا اور انہیں کسی نہ کسی صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔

برطانوی نیوز ویب سائٹ دی گارڈین میں چھپی 2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق برازیل میں ایک دو سالہ بچے کی جسم سے 50 سوئیاں نکالی گئیں۔ بچے کے والدین کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ یہ سوئیاں کیسے جسم میں پائی گئیں۔

تاہم اس رپورٹ میں ڈاکٹر کے حوالے سے بتایا گیا کہ سوئیوں کی نگلنے کی کوئی علامت بچے میں موجود نہیں تھی اور قومی امکان ہے کہ یہ جسم کے اندر داخل کی گئیں، کچھ سوئیاں پھیپڑوں میں بھی موجود تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان