کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے: چیف جسٹس

سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ 23 دائر درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس معاملے کو حل کیے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ اسلام آباد میں 22 ستمبر 2023 کو قائد اعظم یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ کے اجلاس میں شریک ہیں (قائد اعظم یونیورسٹی ایکس اکاؤنٹ)

سپریم کورٹ آف پاکستان میں تاحیات نااہلی سے متعلق کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی  نے کہا کہ کسی کو تاحیات نااہل کرنا ’اسلام کے خلاف‘ ہے۔

جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجز بینچ نے تاحیات نااہلی سے متعلق 23 متفرق درخواستوں کی سماعت کی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’سارے معاملے کا حل اسلام میں موجود ہے جس کی طرف ہم لوگ جاتے نہیں، کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے۔

’62 ون ایف انسان کو برا کہہ رہا ہے۔ تاحیات نااہلی توبہ کا راستہ بند کر دیتی ہے۔ اگر توبہ کا راستہ خدا نے بند نہیں کیا تو عدالت کیسے کر سکتی ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور اعوان نے سماعت کے آغاز پر دلائل میں کہا کہ ’آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا پانچ سال کرنے کی قانون سازی کی حمایت کر رہے ہیں، تاحیات نااہلی کی مدت کے فیصلے پر نظرثانی ہونی چاہیے۔‘

آئین کی شق 62 ون ایف پارلیمان کے رکن کی اہلیت سے متعلق ہے۔

شق کے مطابق پارلیمان کا کوئی رکن صادق اور امین نہیں مانا جائے گا اگر اس معیار پر پورا نہیں اترتا اور اسے عدالت سے سزا سنائی جائے تو یہی تصور کیا جاتا رہا ہے کہ وہ سزا تاحیات نااہلی کی صورت میں ہوگی لیکن بعد ازاں پارلیمان نے قانون کو بدل اور سزا کا تعین پانچ سال کر دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ’الیکشن 8 فروری کو ہونے جا رہے ہیں، ایک آر او (ریٹرنگ افسر) کوئی بات کرے گا دوسرا کوئی اور۔۔۔ ہم نے یہ کیس اس لیے لگایا کہ سب کے لیے ایک وضاحت آ جائے۔ کوشش ہے کہ جلد فیصلہ کیا جائے تاکہ ریٹرننگ افسران کنفیوز نہ ہوں، ہم اس کیس کو حل کیے بغیر نہیں چھوڑ سکتے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’منتخب نمائندوں کی قانون سازی کو حقارت سے نہیں دیکھا جا سکتا، کیا پانچ جنٹلمینز کی دانش پارلیمنٹ کے اراکین کی دانش مندانہ قانون سازی کو ختم کر سکتی ہے؟

’سیاست دان عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں، آمروں اورسیاست دانوں کوایک ساتھ نہیں پرکھا جاسکتا۔ آمر آئین توڑ کر حکومت میں آتا ہے منتخب ہو کر نہیں آتا، سیاست دانوں کو ایسے برا نہ بولیں وہ عوامی رائے سےمنتخب ہوتے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’نااہلی کی یہ شقیں ایک ڈکٹیٹر نے شامل کیں درست یا غلط؟ یا تو ہم پھر ڈکٹیٹر شپ کو ٹھیک مان لیں۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’جب قانون آ چکا ہے اور نااہلی 5 سال کی ہوچکی توتاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی۔

چیف جسٹس نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دو متضاد فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہی جج سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی لکھتے ہیں، فیصل واوڈا کیس میں انہوں نے مائنڈ تبدیل کیا اور اپنے ہی موقف کی نفی کی۔

ڈھائی گھنٹے کی سماعت کے بعد وقفہ کیا گیا اور وقفے کے بعد عدالتی معاون عذیر بھنڈاری نے دلائل دیے۔ طویل سماعت میں دو بار وقفے لیے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’تاحیات نااہلی کے فیصلے کی بنیاد کسی منطق پر ہی ہونی چاہیے، کوئی عدالت کسی کی سچے اور راست گو ہونے کا ڈیکلریشن کیسے دے سکتی ہے؟

’ایک فوجداری یا سول کیس میں ایک گواہ جھوٹ بولتا ہے، کیا اس بنیاد پر تاحیات نااہلی ہو سکتی ہے، جعل سازی پر ڈیکلریشن کون دے گا؟

’کچھ الفاظ ایسے ہیں جو محض کاغذ کے ٹکرے کے سوا کچھ نہیں، عدالت انتخابات کے لیے کسی کے حقوق متاثر نہیں کرنا چاہتی۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’شکر ہے آرٹیکل 62 ون ایف کی اہلیت کا معیار ججز کے لیے نہیں ہے، اگر ججز کے لیے ایسا معیار ہوتا تو کوئی بھی جج نہ بن سکتا، میں تو ڈر گیا ہوں شکر ہے پارلیمان نے یہ معیار ہمارے لئے مقرر نہیں کیا۔‘

عدالتی معاون کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فریقین کے مزید دلائل کے لیے سماعت جمعہ کی صبح نو بجے تک ملتوی کر دی۔


مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان