سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات پر نظر ثانی بل 2023 کے نافذالعمل ہونے کے بعد اب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا اس سے کسی سیاسی رہنما خصوصاً سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ریلیف مل سکے گا یا نہیں؟
صدر پاکستان عارف علوی کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات پر نظر ثانی بل 2023 کی منظوری اور توثیق کے بعد گذشتہ روز وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا ایک بیان منظرعام پر آیا تھا۔
اس ویڈیو میں اعظم نذیر تارڑ یہ کہتے دکھائی دیے کہ اس قانون سے نواز شریف کو ریلیف نہیں ملے گا۔
تاہم انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس بیان کو نامکمل قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کی ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے نواز شریف کو ریلیف نہ ملنے سے متعلق بیان پر کہا کہ ’میری غیر رسمی گفتگو کو نامکمل اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔‘
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بل سب کے لیے ہے۔‘
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ’پاناما اور جہانگیر ترین کے کیس میں نظرثانی سے فائدہ اٹھایا جا چکا تھا، البتہ تاحیات نااہلی اور پارٹی کی صدارت سے ہٹائے جانے کی جو نا انصافی ہوئی ہے، اس سے متعلق اس بل میں سہولت دی گئی ہے۔‘
’شہریوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ 60 روز کے اندر اندر اپیل فائل کر سکتے ہیں۔ تو وہ معاملہ بالکل اس میں کور ہوتا ہے اور کئی افراد اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات پر نظر ثانی بل 2023 سینیٹر عرفان صدیقی نے ایوان میں پیش کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نافذالعمل قانون کے مطابق ایسے متاثرہ شخص کو نظرثانی درخواست دائر کرنے کا حق ہوگا جس کے خلاف اس قانون سے قبل آرٹیکل 184/3 کے تحت فیصلہ دیا گیا ہو۔
نظرثانی کی درخواست اس قانون کے آغاز کے 60 دن کے اندر دائر کی جائے گی جبکہ سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست فیصلہ سنانے والے بینچ سے بڑا بینچ سنے گا۔
اس قانون کے تحت جس بھی فرد کو از خود نوٹس کیس میں سزائیں ہوئی ہیں وہ تمام افراد سپریم کورٹ کے سامنے ان سزاؤں کے خلاف اپیل دائر کر سکیں گے۔
ماضی کے از خود نوٹس کیس میں نواز شریف کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما جہانگیر ترین، مسلم لیگ ن کے نہال ہاشمی اور دانیال عزیز بھی اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کر سکیں گے۔
سال 2017 میں سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا جبکہ اسی سال جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیا گیا تھا۔