افغان مذاکرات کی معطلی کے بعد فریقین کے پاس کیا آپشن ہیں؟

صدر ٹرمپ کی جانب سے امن مذاکرات اچانک معطل کیے جانے کے باوجود امریکہ اور طالبان نے آئندہ بات چیت کے امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا۔

مذاکرات کی معطلی سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہی ہو گا: افغان طالبان (اے ایف پی)

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو ٹوئٹر کے ذریعے رواں سال شروع ہونے والے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات، جو حتمی شکل اختیار کر چکے تھے، اچانک معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔

ٹرمپ نے اپنی ٹویٹس میں دعوی کیا کہ وہ افغان طالبان اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سے کیمپ ڈیوڈ میں علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرنے والے تھے لیکن حالیہ کابل بم دھماکے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 ہلاکتوں کے بعد انہوں نے ملاقاتیں نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ٹرمپ کی جانب سے امن مذاکرات معطل کرنے کے اعلان کو تجزیہ کار مخلتف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں۔

بعض تجزیہ کار امریکہ جبکہ کچھ طالبان اور کابل کو مذاکرات کی ناکامی کی وجہ سمجھتے ہیں۔

افغان امن مذاکرات پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے امریکہ میں افغانستان کے لیے خصوصی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ بھی بات چیت کی اور امن معاہدے کا متن بھی تیار ہو گیا۔

خلیل زاد حالیہ دنوں میں افغان حکام سے گفتگو کے لیے کابل بھی گئے، جہاں انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا مجوزہ معاہدے کی رو سے طالبان تشدد میں کمی کریں گے، لیکن امریکہ سے بات چیت کے ساتھ ساتھ طالبان جنگجوؤں نے افغانستان میں کارروائیاں بھی جاری رکھیں ، جسے خلیل زاد نے غیر سنجیدہ رویہ قرار دیا۔

یوسفزئی کے مطابق ’طالبان نے مذاکرات کے دوران کارروائیاں جاری رکھ کر بڑی غلطی کی۔اگر وہ واقعی امن کے خواہاں تھے تو ان کے لیے ایک ماحول بن رہا تھا جس سے وہ افغانستان کے سیاسی دائرے میں آجاتے اور ان کو عالمی حمایت بھی ملتی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔‘

مذاکرات کی معطلی کے بعد اب امریکہ کے پاس کیا آپشن ہیں؟ اس سوال کے جواب میں یوسفزئی نے کہا ’میرے خیال میں امریکہ اب افغانستان میں اپنی کچھ فوج برقرار رکھے گا تاکہ افغان سکیورٹی فورسز کی معاونت کی جا سکے‘۔

دوسری جانب کچھ تجزیہ کار امریکہ کو مذاکرات ختم ہونے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

اسلام آباد میں موجود افغان امور پر نظر رکھنے والے صحافی طاہر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا امریکہ کی یہ دلیل بہت کمزور ہے کہ انھوں نے مذاکرات اس لیے ختم کیے کیونکہ طالبان حملے کر رہے ہیں۔

’یہ دلیل بہت کمزور ہے کیونکہ مذاکرات کے دوران سیز فائر کی بات نہیں کی گئی۔ اگر طالبان حملے کر رہے ہیں تو دوسری جانب افغان حکومت اور امریکہ بھی حملے کر رہے ہیں اور حالیہ دنوں میں ایک گھر میں چار بھائیوں کو ہلاک کرنا اس کی ایک مثال ہے۔’

تاہم طاہر خان کا کہنا ہے اس ساری صورتحال کے اثرات افغان عوام پر پڑیں گے کیونکہ اگر طالبان غیر ملکیوں کے ٹھکانوں پر حملے کرتے ہیں تو آس پاس عوام بھی زد میں آتے ہیں۔

طاہر کے خیال میں شاید صدر ٹرمپ اُس لابی کے دباؤ میں آ گئے جس کا ماننا ہے کہ امن مذاکرات دراصل امریکی سرینڈر ہو گا۔

’اسی طرح کچھ حلقے کہہ رہے ہیں کہ شاید طالبان کی واپسی سے وہی صورتحال پیش آجائے جو2001 سے پہلے تھی۔‘

’مذاکرات کی معطلی سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہی ہو گا‘

صدر ٹرمپ کے اچانک امن مذاکرات معطل کرنے کے اعلان پر افغان طالبان نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو ہو گا۔

افغان طالبان نے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس کے مطابق انہوں نے مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے دنیا کو ثابت کر دیا کہ جنگ ان پر مسلط کی گئی، اگر جنگ کی جگہ افہام وتفہیم کے طریقے کو اپنایاجائے تو وہ آخر تک اس کے لیے پابند رہیں گے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ فریقین معاہدے کے اعلان اور اس پر دستخطوں کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

’معاہدے پر دستخط اور اعلان کے بعد ہم نے بین الافغان مذاکرات کی نشست کے لیے سمتبر کی23 تاریخ مقرر کی تھی اور خطے، دنیا کے دیگر ممالک اور عالمی تنظیموں نے بھی اس عمل کی حمایت کی تھی۔‘

افغان طالبان نے مزید کہا معاہدے پر دستخط سے قبل کابل حملے پر ٹرمپ کا ردعمل بے صبری اور ناتجربہ کاری کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ مذکورہ حملے سے قبل امریکی فوج اوران کے افغان حامیوں نے متعدد حملوں میں سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کیا تھا۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکہ دورے کا دعوت نامہ انہیں اگست کے آخر میں ڈاکٹر زلمے خلیل زاد نے دیا اور انہوں نے امریکہ دورے کو دوحہ میں معاہدے پر دستخط تک مؤخر کر دیا تھا۔

افغان طالبان نے امید ظاہر کی کہ امریکی وفد افغانستان پر’قبضہ مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے‘ مذاکرات پر واپس آ جائیں گے۔

بات چیت کا دروزہ بند نہیں ہوا

امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے مختلف ٹی وی چینلز سے گفتگو کرتے ہوئے مستقبل میں بات چیت کی بحالی کے امکان کو رد نہیں کیا۔

تاہم، ان کا کہنا تھا امریکہ طالبان سے ’خصوصی عزم‘ چاہتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

این بی سی سے گفتگو میں پومپیو نے کہا کہ وہ ناامید نہیں۔’مجھے توقع ہے کہ طالبان اپنے رویے میں تبدیلی لاتےہوئے وہ سارے اقدامات اٹھائیں گے جن کا ہم مہینوں سے مطالبہ کر رہے ہیں‘۔

انہوں نے طالبان پر زور دیا کہ وہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت سے مذاکرات پر مسلسل انکار چھوڑ دیں۔ ’ آخر میں تمام معاملات بات چیت کے کئی ادوار سے ہی حل ہوں گے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

پومپیو نے خبردار کیا امریکہ ’طالبان پر دباؤ کم نہیں کرے گا‘۔

فریقین تحمل سے بات چیت کا عمل جاری رکھیں‘

تازہ صورتحال پر پاکستان نے مذاکرات کے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل سے بات چیت کا عمل جاری رکھیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ پرتشدد کارروائیوں کی حوصلہ شکنی اور مذمت کی۔

’پاکستان نے مخلصانہ طور پر مشترکہ ذمہ داری کے تحت افغان امن عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔‘

دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان حالیہ صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

’ہم ایک بار پھر واضح کرتے ہیں افغانستان کے مسئلے کا حل سیاسی ہے۔ ہم تمام فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ جلد از جلد مذاکرات کی میز پر آ کر مسئلے کا سیاسی حل تلاش کریں۔‘

مستقبل میں مذاکرات کی امید ہے؟

بعض حلقے خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ ٹرمپ نے مذاکرات مکمل طور پر ختم نہیں کیے اور بات کے لیے دروازہ کھلا چھوڑا ہے۔

بی بی سی افغان سروس کے لندن دفتر میں آن لائن ایڈیٹر حمید شجاع نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا ٹرمپ نے جو ٹویٹس کی ہیں ان میں کہیں نہیں لکھا کہ مذاکرات مکمل طور پر ختم ہوگئے اور آئندہ کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو گی۔

 ‘یہ مذاکرات کل، ہفتے یا مہینے بعد کسی بھی وقت دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔ طالبان اور افغان حکومت کی طرف سے مذاکرات معطل پر رد عمل کے حوالے سے جاری کردہ اعلامیوں میں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ مذاکرات ختم ہوگئے۔‘

پاکستان کا کردار کیا ہوگا؟

اس بارے میں طاہر خان کا کہنا تھا پاکستان نے ہمیشہ اپنا موقف مبہم رکھا۔

‘مجھے لگتا ہے پاکستان اور چین دونوں یہی سوچتے ہیں کہ غیر ملکی افواج افغانستان میں رہیں۔’

انھوں نے کہا پاکستان کو چاہیے کہ وہ امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

کیا مذاکرات کی ناکامی میں کابل کا کوئی کردار ہے؟

طاہر کسی حد تک افغان حکومت کو بھی مذاکرات کی معطلی کا ذمہ دار ٹھراتے ہیں کیونکہ ایک طرف اگر کابل شکوہ کر رہا تھا کہ اسے مذاکراتی عمل سے باہر رکھا گیا تو دوسری جانب خلیل زاد متعدد بار افغان حکام سے ملے بھی ہیں تاکہ انہیں مذاکرات میں پیش رفت کے حوالے سے بتا سکیں۔

طاہر نے کہا اب تو طالبان بھی راضی تھے کہ مذاکرات کے بعد وہ افغان حکومت کے ساتھ بیٹھیں اور اس کے لیے افغان حکومت نے ایک وفد بھی تشکیل دیا تھا لیکن ان سب اقدامات کے باوجود ٹرمپ نے مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کردیا۔


اضافی رپوٹنگ خبر رساں ادارے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا