’الیکٹ ایبلز‘ کیا ہیں اور انتخابات میں کتنے موثر ثابت ہوں گے؟

’الیکٹ ایبلز‘ ہوتے کیا ہیں، سیاسی جماعتوں کو ان کی بیساکھیوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے، اور آنے والے انتخابات میں ان کی کتنی اہمیت ہو گی؟

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کوئٹہ کے دورے کے موقعے پر (اے ایف پی/انڈپینڈنٹ اردو گرافکس)

کیا پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت محض پارٹی ووٹ بینک کی بنیاد پر 2024 کا الیکشن جیت سکتی ہے؟ اس سوال پر آنے سے پہلے ہم آپ کو 1970 کے انتخابات کا ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہیں۔

صحافی قیوم نظامی اپنی کتاب ’جو دیکھا جو سنا‘ میں لکھتے ہیں، ’شیخ محمد رشید لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ 98 سے (پیپلز پارٹی کی جانب سے) امیدوار تھے جن کا مقابلہ جماعت اسلامی کے امیر میاں محمد طفیل اور کونسل مسلم لیگ کے رہنما میاں عبدالخالق سے تھا۔

’میرے والد دراز قد شخصیت تھے اور جناح کیپ پہنتے تھے۔ ایک روز والد بزرگوار شیخ رشید کے ساتھ گھر گھر انتخابی مہم پر تھے جب گھر کا سربراہ باہر آتا ہم اسے بتاتے کہ شیخ رشید صاحب تشریف لائے ہیں تو وہ میرے والد کو شیخ رشید سمجھ کر ہاتھ ملاتا۔

’میرے والد نے شیخ رشید کے ساتھ جانا چھوڑ دیا تاکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘

بابائے سوشلزم کے نام سے معروف شیخ رشید ایک دبلے پتلے اور انتہائی سادہ انسان تھے۔ تصور کیجیے قومی اسمبلی کا امیدوار اور حلقے کے لوگ چہرے تک سے واقف نہیں۔ جب نتائج آئے تو انہوں نے 68 ہزار 721 ووٹ لیے۔

ان کے مقابلے میں کھڑے تمام امیدواروں کے ووٹ کل ملا کر اس کا ایک تہائی حصہ بھی نہیں بنتے۔

یہ لاہور کا نیو سمن آباد والا شہری حلقہ تھا جس میں شیخ رشید کا ذاتی ووٹ بینک زیادہ سے زیادہ ہزار بارہ سو ہو گا۔ یہ تمام ذوالفقار علی بھٹو کے یا دوسرے لفظوں میں پیپلز پارٹی کے ووٹ تھے۔ یہ اکلوتی مثال نہیں بلکہ 1970 کے انتخابات میں بڑے بڑے برج الٹ گئے تھے۔ بھٹو کی شخصیت کا کرشمہ ایسا تھا کہ لوگوں نے گمنام کرداروں کو بھی ووٹ دیے۔ یہیں سے وہ اصطلاح وجود میں آئی کہ ’کھمبے کو بھی ٹکٹ دیتے تو وہ جیت جاتا۔‘

اب ہم آتے ہیں اپنے سوال کی طرف کہ کیا پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت پارٹی ووٹ بینک کی بنیاد پر آج یہ تاریخ دہرا سکتی ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاسی مبصرین اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے معروف صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں، ’کوئی جماعت بھی اس پوزیشن میں نہیں، اس لیے انتخابات میں کامیابی کا فارمولا ’پارٹی ووٹ بینک + الیکٹ ایبلز‘ ہے۔ حلقے میں برادری یا کسی بھی بنیاد پر اپنا ذاتی ووٹ بینک رکھنے والے سیاست دان الیکٹ ایبلز کہلاتے ہیں۔

’پارٹی ووٹ بینک اور الیکٹ ایبلز کے ذاتی ووٹ کا اشتراک سیٹ جیتنے کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن سے پہلے سیاسی جماعتیں زیادہ سے زیادہ الیکٹ ایبلز اپنی پارٹی میں اکٹھا کرنا چاہتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2018 کا الیکشن اسی طرح جیتا۔ مسلم لیگ ن بھی 2024 میں یہی فارمولا استعمال کر رہی ہے۔‘

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 15 کے قریب الیکٹ ایبلز نے پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے نومبر میں دورہ کوئٹہ کے موقعے ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی۔

دوسری طرف پنجاب میں رانا ثناء اللہ کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ ’ہر اس شخصیت کو مسلم لیگ ن میں شامل کروایا جائے جو سیٹ جیتنے یا زیادہ ووٹ لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔‘

یہاں چند سوال جنم لیتے ہیں۔ الیکٹ ایبلز کے ذاتی ووٹ بینک کا ڈھانچہ کیا ہے اور یہ کیسے تشکیل پایا؟ کیا الیکٹ ایبلز ہر دور میں موثر رہے اور آئندہ بھی رہیں گے؟

الیکٹ ایبلز ووٹ کیسے حاصل کرتے ہیں؟

انتخابی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار احمد اعجاز انڈیپینڈنٹ اردو کو بتاتے ہیں، ’الیکٹ ایبلز وہ شخصیات ہیں جو اپنے ذاتی ووٹ بینک کی بنیاد پر سیٹ نکال سکتی ہوں۔ ذاتی ووٹ بینک رکھنے والی یہ شخصیات عموماً بڑے بڑے زمیندار ہوتے ہیں، پنجاب، سندھ اور سرحد میں بڑی بڑی جاگیریں رکھنے والے افراد۔

’ان شخصیات کی زمین پر کام کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے، ان کی اپنی لمبی چوڑی برادری ہوتی ہے، پھر یہ چھوٹے زمینداروں اور ان کے توسط سے ان کی برادریوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔‘

وہ اپنی بات ایک مثال سے واضح کرتے ہیں، ’پنجاب کے ضلع خانیوال کے ایک حلقے میں رضا حیات ہراج اور فخر امام الیکشن لڑتے ہیں۔ وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنہیں ’رعایا‘ کہا جاتا ہے، یعنی ان کی زمینوں پر کام کرنے والے لوگ جو دونوں طرف تقریباً دس دس ہزار ہیں۔ گویا یہ دونوں امیدوار اپنے گھر ہی سے دس ہزار ووٹ لے کر نکلتے ہیں۔

’اس کے علاؤہ عقیدت کا ووٹ بینک رکھنے والی شخصیات ہیں۔ یہ عموماً بڑے زمیندار بھی ہوتے ہیں۔ ان کے مذہبی مریدوں اور عقیدت مندوں کا ایک وسیع دائرہ ہوتا ہے جو کئی حلقوں تک پھیلا ہوتا ہے اور ہر حال میں انہیں ووٹ دیتا ہے۔‘

 عقیدت کا ووٹ رکھنے والے پیروں کے اثر و رسوخ کی جھلک دیکھنی ہو تو 2017 کو یاد کیجیے جب درگاہ سیال شریف کے سجادہ نشین پیر حمید الدین سیالوی نے ن لیگ چھوڑی۔ تب ان کے ساتھ کم از کم آٹھ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں نے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔

احمد اعجاز بدلتے ہوئے سماجی رجحانات میں الیکٹ ایبلز کے ایک نئے طبقے کی بھی نشاہدہی کرتے ہیں۔ ان کے بقول ’حالیہ عرصے میں الیکٹ ایبلز کے ایک نئے طبقے نے جنم لیا ہے جو مڈل کلاس سے تعلق رکھتا تھا۔ روزگار کی نوعیت بدلی۔ ان کے خاندان کے کچھ لوگ باہر گئے۔

ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے جڑنے کے بعد راتوں رات بےپناہ پیسہ آ گیا۔ یہ نیا طبقہ وہ تمام وسائل رکھتا ہے جس کی بنیاد پر ووٹ لیا جا سکتا ہے۔ یہ اپنے حلقے میں کئی گھروں تک راشن پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ یہ ووٹ خریدتے ہیں اور پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ ان کا بھرپور کردار موجودہ انتخابات میں واضح ہو گا۔‘

کیا یہ الیکٹ ایبلز ہمیشہ سے اتنے مضبوط تھے؟ ان کی جڑیں ماضی میں کتنی دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔

غیر جماعتی انتخابات اور الیکٹ ایبلز کی دھند جو چھٹنے کا نام نہیں لے رہی

 1970 میں پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہوئے اور جیسا کہ ہم نے مثال دی تب ووٹ بینک پارٹی کا تھا۔ اس دور میں مغربی پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست عروج پر تھی۔ ایک طرف بھٹو کی جماعت اور دوسری طرف مذہبی جماعتیں متحرک تھیں۔

مسلم لیگ کے مختلف دھڑے خود کو ’پاکستان بنانے والی جماعت‘ کہہ کر سپیس حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ دور پاکستانی سیاست میں نظریاتی کشمکش کا دور کہلاتا ہے۔

آپ جانتے ہیں 1970 سے پہلے بننے والی اسمبلیوں میں کون لوگ آ رہے تھے؟ یہ انکشافات بہت سے لوگوں کے لیے حیرت انگیز ہوں گے۔

پروفیسر محمد صدیق قریشی کی کتاب ’پولیٹیکل کلچر اِن پاکستان‘ اس موضوع پر عمدہ دستاویز ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ’پاکستان کی پہلی اسمبلی میں 31 وکلا، 27 جاگیردار، 12 دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور ایک بزنس مین تھے۔

’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی (1955) میں 28 زمیندار، 23 وکلا، 14 ریٹائر افسران، آٹھ دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد اور سات بزنس مین تھے۔‘

ان کے مطابق یہی حال 1965 کی اسمبلی کا تھا جہاں ’مغربی پاکستان کے 78 اراکین میں سے 46 جاگیردار، اور دیگر امیر بزنس مین اور ریٹائر بیوروکریٹ تھے۔‘

 1970 کے الیکشن نے پہلی بار اشرافیہ کا زور توڑا۔ ’قومی اسمبلی کی 138 نشستوں میں سے 55 مڈل کلاس، 52 جاگیر داروں اور پانچ بڑے بزنس مینوں اور دیگر مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کی تھیں۔‘

1977 کے انتخابات متنازع ہو گئے اور اس کے بعد 1985 کی اسمبلی آئی جس کے اثرات سے ہماری سیاست آج بھی باہر نہیں نکل سکی۔

سہیل وڑائچ بتاتے ہیں، ’ضیا الحق کو خدشہ تھا پیپلز پارٹی الیکشن میں سویپ کر جائے گی۔ اس نے غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کا اعلان کر دیا۔ یہیں سے ہماری سیاست ہمیشہ کے بدل گئی۔‘

احمد اعجاز کہتے ہیں ’اگرچہ الیکٹ ایبلز پاکستان بننے سے پہلے بھی موجود تھے لیکن ہمارے موجودہ سیاسی تناظر میں اس کا کھرا 1985 کے الیکشن تک جاتا ہے۔ پہلے نظریات بنیادوں پر جماعتوں کو ووٹ پڑتے تھے۔ جب جماعتیں اور جماعتوں کا نظریہ ہی نہیں تو امیدوار کس بنیاد پر انتخابی مہم چلاتے؟ یہیں سے ذات برادری اور پیسے کے کلچر نے جنم لیا۔‘

 ’پولیٹیکل کلچر اِن پاکستان‘ کے مطابق 1993 کے انتخابات میں پی پی اور ن لیگ کے 80 فیصد امیدوار جاگیردار اور صنعت کار تھے۔‘

پاکستان میں انتخابات کے اعداد و شمار مرتب کرنے والے معروف ادارے پلڈاٹ کے مطابق 1985 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کر رکھا تھا سو ’جس شخص کے پاس پیسہ تھا اور وہ سیاسی خواہشات رکھتا تھا وہ میدان میں اتر آیا۔ اس نے سیاسی کلچر تباہ کر کے رکھ دیا۔‘

معروف سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن ظفر فرائیڈے ٹائمز میں اسی بات کی تائید میں وضاحت کرتے ہیں، ’غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات نے ملک کی سیاسی اور انتخابی ڈائنیمکس کو یکسر تبدیل کر دیا۔ سیاسی جماعتوں کی غیر موجودگی میں ذاتی شان و شوکت کو اہمیت حاصل ہو گئی۔ یہ بات نواز شریف کی جانب سے پی پی 105 اور این اے 95 کے انتخابات پر خرچ کیے جانے والے 50 لاکھ روپے (جب ڈالر 15 روپے کا تھا) سے واضح ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے پوسٹر لاہور سے جہلم تک جی ٹی روڈ پر آویزاں کیے گئے تھے۔

’ان دونوں حلقوں (صوبائی اور قومی) میں ووٹرز زیادہ تر آرائیں اور کشمیری تھے۔ نواز شریف نے کشمیری ووٹ پر بھروسہ کیا۔ برادری (قبیلے) کی وابستگیوں نے خالص سیاسی بیانیے اور منشور اور سیاسی نظریے کی عدم موجودگی میں اس خلا کو پر کیا۔ یہ ملک میں سیاسی جرائم اور بحرانوں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز تھا۔ اس کے بعد سے کھیلوں اور فنون لطیفہ سمیت تمام قومی اداروں کا زوال شروع ہوا۔‘

الیکٹ ایبلز جمہوری نظام میں رخنہ؟

جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ فرد کی بجائے سیاسی نظریات اور خیالات کو فوقیت دی جائے۔ لیکن روحانی، جاگیرداری یا برادری کارڈ کو ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کرنے والے کسی بھی پارٹی، کسی بھی ٹکٹ اور کسی بھی انتخابی نشان پر جیتنے کی صلاحیت رکھنے یہ الیکٹ ایبل صرف اور صرف ذاتی مفاد کو مدِنظر رکھتے ہیں۔ اصولی طور پر الیکٹ ایبلز کا یہ سلسلہ جمہوری نظام کے بنیادی تقاضوں سے متصادم ہے۔

کیا ’الیکٹ ایبلز‘ کی بیساکھیاں مسلم لیگ ن کے کام آئیں گی؟

پاکستان میں انتخابات سے پہلے الیکٹ ایبلز کی سیاسی قلابازیاں معمول کی سرگرمی ہیں۔ عموماً جس جماعت پر سٹیبل شمنٹ مہربان ہو یہ موسمی پرندے بھی اسی کی طرف رخ کرتے ہیں۔ آج کل ان کا آشیانہ مسلم لیگ ن کی چھتری ہے جس پر آئے دن کوئی نہ کوئی کبوتر اتر رہا ہوتا ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں، ’مسلم لیگ ن تو تھی ہی الیکٹ ایبلز کی جماعت۔ اس کا پارٹی ووٹ بینک 1990 کی دہائی میں بنا۔ یہ جب بھی جیتی پارٹی ووٹ بینک + الیکٹ ایبلز سے جیتی۔ ایسا لگتا ہے مسلم لیگ ن دیگر جماعتوں پر برتری لے جائے گی اور اس میں الیکٹ ایبلز کا بہت اہم کردار ہو گا۔‘

پہلی بار الیکٹ ایبلز کو یہ خدشات تنگ کر رہے ہیں کہ ہم اسمبلیوں میں کیسے پہنچیں گے۔ ورنہ روایتی طور پر یہ آزاد کھڑے ہوتے اور الیکشن جیت کر مرضی کی ڈیل کرنے کی پوزیشن میں ہوتے تھے

احمد اعجاز

احمد اعجاز کی رائے اس سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں ’پنجاب بالخصوص جی ٹی روڈ پر الیکٹ ایبلز کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ یہاں تک کہ جنوبی پنجاب کے الیکٹ ایبلز کو ہم معروف معنوں میں الیکٹ ایبلز نہیں کہہ سکتے۔ یعنی وہ بغیر کسی پارٹی سے جڑے تنہا اپنے بل بوتے پر الیکشن نہیں جیت سکتے۔‘

جب ہم نے پوچھا کہ الیکٹ ایبلز کا زور ٹوٹنے کی کیا وجوہات ہیں تو ان کا کہنا تھا، ’اس میں بنیادی کردار عمران خان فیکٹر کا ہے۔ عمران کا جادو نوجوان طبقے پر چلا ہے۔ وہ کسی کی سننے کو تیار نہیں۔ وہ متحرک ہے، جذباتی ہے۔ ووٹ مانگنے اور دائرہ اثر کو بڑھانے کا طریقہ کار تبدیل ہو گیا ہے۔ الیکٹ ایبلز جن دھڑوں اور برادریوں پر انحصار کرتے تھے وہ ٹوٹے ہیں اور ٹوٹ رہے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’پہلی بار الیکٹ ایبلز کو یہ خدشات تنگ کر رہے ہیں کہ ہم اسمبلیوں میں کیسے پہنچیں گے۔ ورنہ روایتی طور پر یہ آزاد کھڑے ہوتے اور الیکشن جیت کر مرضی کی ڈیل کرنے کی پوزیشن میں ہوتے تھے۔

’ان کے جیتنے کی واحد ممکنہ صورت اسٹیبلشمنٹ کی حد سے بڑھی ہوئی جانبداری ہے۔ اگر مخالف تگڑے امیدوار میدان میں ہی نہ اتر سکے تو الیکٹ ایبلز جیت جائیں گے اور ن لیگ کو اس کا فائدہ ہو گا۔ لیکن کیا یہ خود اس بات کی دلیل نہیں کہ الیکٹ ایبلز میں دم خم نہیں رہا؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک اور اہم معاملہ یہ ہے کہ اگر عام حالات میں الیکٹ ایبلز جیت کر ٹکٹ دینے والی پارٹی کے تابع ہو جاتے ہیں، کہ چلو کچھ ووٹ ہمارے تھے، کچھ ان کے، مگر موجودہ صورتِ حال میں اگر وہ اسٹیبلمشنٹ کی مدد سے جیتتے ہیں تو ان پر مسلم لیگ ن کی بات ماننے اور ان کی پالیسیوں پر چلنے کے لیے کتنا دباؤ ہو گا؟ وہ تو اسی کی سنیں گے جس نے ان کے خیال میں انہیں جتوایا ہے۔ یوں اسٹیبلشمنٹ مزید مضبوط اور سیاسی پارٹی کمزور ہو گی۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست