بغیر آگاہ کیے ہسپتال داخلے پر امریکی وزیر دفاع تنقید کی زد میں

لائیڈ آسٹن کو طبی پیچیدگیوں کے باعث یکم جنوری کو والٹر ریڈ نیشنل ملٹری میڈیکل سینٹر میں داخل کروایا گیا تھا، تاہم پینٹاگون نے چار دن تک اس حوالے سے کوئی عوامی اعلان نہیں کیا اور دیگر اعلیٰ حکومتی شخصیات کو بھی بر وقت مطلع نہیں کیا۔

امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن 9 دسمبر 2020 کو ڈیلاویئر میں ایک تقریب میں شرکت کے موقعے پر (اے ایف پی)

امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن کو بغیر بتائے ہسپتال میں داخل ہونے پر تنقید کا سامنا ہے کیوں کہ انہوں نے اس حوالے سے وائٹ ہاؤس اور کانگریس کو بروقت آگاہ نہیں کیا اور مشرق وسطیٰ کی صورت حال کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر اہم حکام کو اپنی صحت سے متعلق اندھیرے میں رکھا۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق لائیڈ آسٹن کو طبی پیچیدگیوں کے باعث یکم جنوری کو والٹر ریڈ نیشنل ملٹری میڈیکل سینٹر میں داخل کروایا گیا تھا۔ پینٹاگون نے چار دن تک اس حوالے سے کوئی عوامی اعلان نہیں کیا اور دیگر اعلیٰ حکومتی شخصیات کو بھی بروقت مطلع نہیں کیا گیا۔

70 سالہ وزیر دفاع ایک ایسے وقت میں علاج کے لیے ہسپتال داخل ہوئے جب امریکہ اسرائیل کی غزہ  پر مسلح جنگ کے نتائج پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے اور ان حالات میں عراق اور شام میں امریکی افواج کے خلاف تشدد کے ساتھ ساتھ بحیرہ احمر میں بین الاقوامی جہازوں پر حملوں کے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

یوریشیا گروپ کی پولیٹیکل رسک فرم کے صدر ایان بریمر نے پیر کو کہا کہ مشرق وسطیٰ میں افراتفری کے پیش نظر یہ خیال حیران کن ہے کہ ’چار دن سے وزیر دفاع ہسپتال میں ہیں اور (صدر) جو بائیڈن لاعلم ہیں۔‘

بریمر نے کہا کہ اس صورت حال میں صدر کے پاس موقع ہے کہ وہ لائیڈ آسٹن کو ہٹا دیں لیکن وائٹ ہاؤس وزیر دفاع کے ساتھ کھڑا ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ لائیڈ آسٹن کا 22 دسمبر کو آپریشن کیا گیا تھا اور اگلے دن انہیں چھٹی دے دی گئی تھی، لیکن یکم جنوری سے انہیں ’شدید درد‘ ہوا اور ایمبولینس کے ذریعے انہیں والٹر ریڈ نیشنل ملٹری میڈیکل سینٹر لے جایا گیا۔

پیٹ رائیڈر نے کہا کہ آسٹن نے کچھ کام دو جنوری کو نائب وزیر دفاع کیتھلین ہکس کے کو تفویض کر دیے تھے لیکن دو دن تک انہیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ وہ ہسپتال میں داخل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وائٹ ہاؤس کو آگاہ کرتے ہوئے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کو بھی لائیڈ آسٹن کی بیماری سے متعلق چار جنوری کو مطلع کیا گیا تھا جبکہ کانگرس کو اس سے بھی اگلے دن بتایا گیا اور پھر اسی دن پینٹاگون نے ایک عوامی اعلان کیا تھا۔

پینٹاگون کے ترجمان کا کہنا تھا کہ لائیڈ آسٹن کے چیف آف سٹاف ’فلو میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے ان نوٹیفکیشنز میں تاخیر ہوئی۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم فی الحال اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ہم ان نوٹیفکیشن کے طریقہ کار کو کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں، جس میں وائٹ ہاؤس اور کانگریس کے نوٹیفکیشن شامل ہیں۔‘

پیٹ رائیڈر نے بھی کہا کہ انہیں لائیڈ آسٹن کے ہسپتال میں داخل ہونے کے بارے میں دو جنوری کو مطلع کیا گیا تھا، ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مجھے نہیں لگتا کہ میرے پاس وزیر دفاع کی حالت کے بارے میں معلومات ظاہر کرنے کا اختیار ہے، جب تک کہ ہمیں مزید معلومات نہ مل جائیں۔‘

نوٹیفیکیشن کی عدم دستیابی پر کانگریس کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے اور کچھ رپبلکن قانون سازوں نے لائیڈ آسٹن کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

لائیڈ آسٹن کے فوری استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے نمائندہ ایلس سٹیفنک نے ایک بیان میں کہا: ’یہ حیران کن اور قطعی طور پر ناقابل قبول ہے کہ محکمہ دفاع نے صدر، قومی سلامتی کونسل اور امریکی عوام کو مطلع کرنے کے لیے کئی دن انتظار کیا۔‘

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’لائیڈ آسٹن کو نامناسب پیشہ ورانہ طرز عمل اور فرائض میں کوتاہی پر فوری طور پر برطرف کیا جانا چاہیے۔‘

تاہم وائٹ ہاؤس نے ان کی حمایت کی ہے اور پریس سیکریٹری کیرین جین پیئر کا کہنا ہے کہ صدر کو لائیڈ آسٹن پر مکمل اعتماد ہے۔

پیٹ رائیڈر نے یہ بھی کہا کہ ’لائیڈ آسٹن اب بھی ہسپتال میں زیرعلاج ہیں لیکن اب انتہائی نگہداشت میں نہیں ہیں اور انہوں نے اپنی پوری ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لی ہیں، ان کا استعفیٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘

پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ ’وزیر دفاع اور محکمہ ( دفاع) کے لیے امریکی عوام کے اعتماد اور اعتبار سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ ہم اس اعتماد کو حاصل کرنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر سخت محنت جاری رکھیں گے۔‘

دریں اثنا لائیڈ آسٹن نے ہفتے کو جاری ایک بیان میں کہا کہ وہ ’اطلاع کے بارے میں اپنے فیصلوں کی مکمل ذمہ داری لیتے ہیں‘ اور اعتراف کیا کہ ’عوام کو مناسب طور پر آگاہ کرنے کے لیے بہتر کام ہو سکتا تھا۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا