’روٹی نہیں ملتی تو خالی پیٹ سوتے ہیں‘: سردی میں افغانوں کی شکایت

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کی ترجمان کیرولین گلک کا کہنا ہے کہ ’افغانستان میں حالات پہلے ہی تباہ کن تھے۔ لیکن جیسے ہی موسم سرما شروع ہوتا ہے، ہمارے پاس دو ہنگامی صورت حال ہوتی ہیں۔ ‘

18 جنوری 2023 کو صوبہ بدخشاں کے علاقے فیض آباد میں ایک خاتون شدید سرد موسم میں خورد و نوش کا سامان اٹھائے گھر کی جانب جا رہی ہیں (اے ایف پی) 

سردیوں میں زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرنے والے کمزور افغانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ملنے والی نقد رقم وصول کرنے کی غرض سے پل علم شہر جانے کے لیے خرما کو اپنے پڑوسی سے جوتے ادھار مانگنے پڑے۔

45 سالہ بیوہ مشرقی افغان شہر میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کی جانب سے 3200 افغانی (45 ڈالر) وصول کرنے کے لیے نیلے رنگ کے برقعے میں انتظار کر رہی تھیں، جہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے جا سکتا ہے۔

چھ بچوں کی ماں نے اے ایف پی کو بتایا، ’ہم پریشان ہیں۔ جب ہمیں روٹی نہیں ملتی، تو ہم خالی پیٹ سو جاتے ہیں۔‘

وہ ان لاکھوں افراد میں سے ایک ہیں جنہیں کئی ماہ سے بھوک اور سردی کا سامنا ہے، قدرتی آفات اور نقل مکانی نے مزید افغانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے، یہاں تک کہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک – جو دہائیوں کی جنگ کا شکار ہے – کی مالی اعانت میں بھی کمی آئی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کی ترجمان کیرولین گلک کا کہنا ہے کہ ’افغانستان میں حالات پہلے ہی تباہ کن تھے۔ لیکن جیسے ہی موسم سرما شروع ہوتا ہے، ہمارے پاس دو ہنگامی صورت حال ہوتی ہیں۔ ‘

صوبہ ہرات میں اکتوبر میں آنے والے زلزلوں کے بعد ہزاروں افراد اب بھی خیموں میں سو رہے ہیں کیونکہ 31 ہزار گھر تباہ یا ناقابل رہائش ہو گئے تھے۔

کیرولین گلک نے کہا کہ پاکستان سے آنے والے تقریبا پانچ لاکھ افغان حالیہ مہینوں میں ایک ایسے ملک میں واپس آئے ہیں جہاں بے روزگاری بہت زیادہ ہے، ’سال کے بدترین ممکنہ وقت میں۔‘

32 سالہ ربانی ان میں سے ایک ہیں، جو ایک پناہ گزین کی حیثیت سے ڈبلیو ایف پی کی امداد: 50 کلوگرام (110 پاؤنڈ) آٹا، چھ کلو لوبیا، پانچ لیٹر تیل اور 450 گرام نمک کے حقدار ہیں۔

انہوں نے کہا، ’ یہاں کوئی کام نہیں ہے۔‘

جب سردی بڑھنے لگتی ہے تو ان کی سات رکنی فیملی نے اس خیمے کو چھوڑ دیا، جس پر انہوں نے پاکستان سے گزرنے کے بعد سے قبضہ کر رکھا تھا۔

’جب کھانے کے لیے کچھ نہیں بچتا، تو موت بھیک مانگنے سے بہتر ہے۔‘

67 سالہ شکر گل کو حال ہی میں ڈبلیو ایف پی کی جانب سے 3200 افغانیوں کی چھ ماہانہ ادائیگیوں میں سے پہلی ادائیگی ملی تھی۔

انہوں نے کہا، ’اگر ہم بڑوں کے پاس کئی دنوں تک کھانے کے لیے کچھ نہ بھی ہو، تو گزارا ہو جاتا ہے... لیکن ہم اپنے بچوں کو بھوک سے مرنے نہیں دے سکتے۔‘

اس پیسے سے وہ گھریلو ضروری سامان خرید سکیں گی – جو صرف 15 دن کا ہو گا۔

اس سال دنیا بھر میں انسانی ہنگامی صورت حال میں اضافے کی وجہ سے امداد کم ہے۔

ڈبلیو ایف پی کے پل علم مرکز کی ڈائریکٹر بریالئی حکیمی نے کہا، ’جن کے نام شامل نہیں وہ لوگ بھی یہاں آتے اور انتظار کرتے ہیں، خاص طور پر خواتین۔ وہ پریشان ہیں۔ ہم انہیں سمجھاتے ہیں کہ جن لوگوں کو مدد ملتی ہے وہ ان سے زیادہ حقدار ہوتے ہیں۔‘

بی بی ریحانہ کا بھی یہی حال ہے۔ 40 سال کی عمر میں ان کے آٹھ بچے ہیں، شوہر جیل میں ہیں، صحت کے مسائل ہیں اور ’ایک بھی افغانی (کرنسی) نہیں۔‘

برقعے کی جالی کے پیچھے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئی تھیں۔ انہوں نے کہا، ’میرا نام فہرست میں نہیں تھا۔ انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا۔‘

ڈبلیو ایف پی کے ترجمان فلپ کروف نے کہا کہ اس موسم سرما میں ایک کروڑ 58 لاکھ  افراد کو امداد کی ضرورت ہے، جن میں سے 28 لاکھ ہنگامی سطح پر غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

کروف نے مزید کہا کہ فنڈز کی کمی نے ڈبلیو ایف پی کو امداد کی فراہمی کے معیار کو سخت کرنے پر مجبور کر دیا ہے، صرف 60 لاکھ افراد خوراک، نقد رقم امداد کے اہل ہیں۔

’اس سے ایک کروڑ لوگ رہ جاتے ہیں۔‘

سال 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں انسانی امداد کی فراہمی میں کمی واقع ہوئی ہے، جس کا ایک حصہ خواتین پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق آج تقریباً 85 فیصد افغان ایک ڈالر یومیہ سے بھی کم پر گزارا کرتے ہیں، جب کہ دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں انتہائی غربت پائی جاتی ہے۔

غریب ترین لوگوں کے پاس پریشان کن آپشنز رہ جاتے ہیں: قرض میں ڈوبنا، گلیوں میں کام کرنے کے لیے اپنے بچوں کو سکول سے نکالنا، یا گھریلو اخراجات کو کم کرنے کے لیے چھوٹی بیٹیوں کی شادی کرنا۔

پل علم سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک صحرا میں ڈبلیو ایف پی نے ضلع برکی برک میں ضروری اشیا تقسیم کیں۔

تین پہیوں والے فلیٹ بیڈ کے پیچھے بیٹھے 77 سالہ ذوالفقار نے بتایا کہ ان کی فیملی کبھی کبھی کئی دنوں تک بھوکی رہتی ہے۔

انہوں نے کہا، ’جب ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں بچتا، تو ہم خود کو صرف شال میں لپیٹ کر سو جاتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غربت سے دوچار کابل کے مضافاتی علاقوں میں پاکستان سے واپس آنے والے ہزاروں افراد نے امداد کی درخواست کی ہے۔

طالبان حکام نے واپس آنے والوں کو سرحد پر مدد فراہم کی، لیکن حکومت کے فلاحی پروگرام بہت محدود ہیں۔

اہلیت کے لحاظ سے یو این ایچ سی آر زیادہ سے زیادہ 375 ڈالر فی کس تقسیم کرتا ہے، بعض اوقات اس سے بھی کم۔

نجیبہ دو ماہ قبل اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ افغانستان پہنچی تھیں۔

پانچوں ان کے بھائی کے گھر کے ایک کمرے میں فرش پر سوتے ہیں۔

انہوں نے صحن میں اپنے سب سے چھوٹے بچے کو جھلاتے ہوئے کہا، ’ہم گرم رکھنے کے لیے گرم پانی سے ڈبے بھرتے ہیں، ہمارے پاس کوئی لکڑی نہیں ہے۔‘

سردی کے باوجود ان کے دوسرے بچے کے پاؤں ننگے تھے۔

دوسری طرف بے نظیر کا مستقبل بھی اتنا ہی غیر یقینی ہے۔ 34 سال کی عمر میں، ان کی آٹھ بیٹیاں، ایک بیٹا اور ایک بیمار شوہر ہیں۔

یو این ایچ سی آر سے ملنے والی رقم کو پکڑ کر انہوں نے 340 ڈالر گننے میں مدد مانگی جو تین ہفتوں تک زندہ رہنے کے لیے کافی تھے۔

انہوں نے صوبہ ننگرہار، جہاں ان کی فیملی ایک اینٹوں کے گودام میں رہتی ہے، کے لیے گھنٹوں طویل سفر شروع کرنے سے پہلے کہا، ’صرف اللہ ہی ہمارے ساتھ ہے۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا