کیا پاکستان کیمپ ڈیوڈ خفیہ ملاقات سے آگاہ تھا؟

غالباً ٹرمپ اب سمجھ گئے ہیں کہ خراب ڈیل سے ڈیل نہ ہونا بہتر ہے جبکہ طالبان سمجھتے ہیں انہوں نے امریکیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔

پاکستان اور چین افغان تنازع کے پُرامن حل کے لیے طالبان اورافغان حکومت میں براہ راست مذاکرات کے خواہاں ہیں کیونکہ مستقبل کے نظام کی تشکیل اسی طرح ممکن ہے۔ (اے ایف پی)

امریکہ نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ختم اور کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی خفیہ ملاقات بھی منسوخ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بامقصد معاہدے کے لیے جنگ بندی ضروری ہے۔ طالبان کے لیے شاید یہی قابل قبول نہیں۔

طالبان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے فیصلے سے زیادہ نقصان امریکہ کا ہوگا جبکہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ امید ہے طالبان رویہ بدلیں گے۔ دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ قیام امن کے لیے طالبان اپنے حملے ترک کر کے ہم سے براہ راست بات چیت کریں۔

طالبان قیادت سے امریکی صدر ٹرمپ کی امریکی سرزمین پر خفیہ ملاقات کا منصوبہ اور پھر اس خفیہ ملاقات کی منسوخی پر صدر ٹرمپ کے سیاسی مخالفین نے سخت تنقید شروع کردی ہے اور متعدد سوالات اٹھاتے ہوئے اسے صدر ٹرمپ کی ناکام خارجہ سفارت کاری کا نام دیا ہے۔ طالبان قیادت کی امریکہ آکر کیمپ ڈیوڈ میں صدر ٹرمپ سے خفیہ ملاقات کے بارے میں خود ٹرمپ کے ٹوئٹر سے انکشاف ہونے پر ایک سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کرنے والے پاکستان کو اس منصوبے کےبارے میں کتنا باخبر رکھا گیا تھا؟ کیا امریکہ یا طالبان نے پاکستانی قیادت کو اس بارے میں اعتماد میں لیا تھا؟ اس خفیہ ملاقات کے لیے پاکستان نے کیا کردار ادا کیا؟ یا پھر امریکہ اور طالبان نے خاموشی سے صدر ٹرمپ اور طالبان کی خفیہ ملاقات کا فیصلہ کرلیا تھا جس کے لیے افغان صدر اشرف غنی کو اعتماد میں لے کر انہیں بھی واشنگٹن آنے کے لیےکہا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات اور صحافیوں سے گفتگو کے دوران افغانستان میں امن کے لیے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے اور امن کے قیام کے لیے پاکستان کے تعاون کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کا کردار بڑا اہم ہے۔ یہ بیان بذات خود پاکستان کی خارجہ پالیسی اور پاکستان کی عسکری قیادت کے لیے بھی سوچ اور فکر کی دعوت دیتا ہے کہ آخر افغانستان میں امن کی متلاشی امریکی حکمت عملی میں پاکستان کے مفادات اور اعتماد کی کیا اور کیسی پوزیشن ہے؟ نیز کشمیر میں بھارتی اقدامات اور پاک بھارت کشیدگی کی موجوہ صورت حال پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرمپ طالبان خفیہ ملاقات کی منسوخی کو بھارت کس طرح اپنے فائدے اور کشمیر کے حوالے سے خود کو عالمی دباؤ سے نکالنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے؟ کیونکہ طالبان امریکہ مذاکرات آگے بڑھانے میں پاکستان کے کردار کے باعث پاک امریکہ تعلقات میں بہتری آئی لہٰذا اب صدر ٹرمپ کی جانب سے خفیہ ملاقات کے انکشاف اور منسوخی کے بعد کی صورت حال میں پاکستان کو کیا کردار ادا کرنا ہے۔ پاکستانی قیادت کوعملی طور پر اس بات کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ پاکستان نہ صرف دنیا کے اس حساس خطے کا حصہ ہے بلکہ وہ حالات کی اونچ نیچ کے دوران بھی اپنا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

افغان امن مذاکرات منسوخی پر طالبان کا ماننا ہے کہ امریکہ انہیں سیاسی موت مارنا چاہتا تھا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ختم کرنے کے فیصلے سے زیادہ تر افغان بشمول صدر اشرف غنی بہت خوش ہوں گے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ٹرمپ انہیں فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ختم کرنے کی وجہ طالبان کی امریکی شرائط کے خلاف مزاحمت تھی۔ ٹرمپ چاہتے تھے کہ طالبان رہنما اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ لے جائیں اور دونوں فریقین کے ساتھ مذاکرات کریں۔تاہم طالبان رہنمائوں کا ماننا تھا کہ امریکہ انہیں دھوکہ دے کر سیاسی موت مارنا چاہتا ہےاور امریکہ مختلف مسائل کو حتمی شکل دینے میں جلد بازی کر رہا ہے۔جبکہ یہ حقیقت کہ ٹرمپ خفیہ طور پر امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیئے جانے والے گروپ سے ذاتی طور پر ملناچاہتے تھے اور وہ بھی 9/11کے 18 برس مکمل ہونے سے چند روز قبل، اس پر واشنگٹن حیران تھا اور یہ کسی دھچکے سے کم نہیں تھا۔

یہ بھی ممکن تھاکہ صدر ٹرمپ اس ڈیل کا کریڈٹ لینا چاہتے تھے تاکہ آئندہ برس انتخابات میں فائدہ اٹھا سکیں۔ غالباً ٹرمپ اب سمجھ گئے ہیں کہ خراب ڈیل سے ڈیل نہ ہونا بہتر ہے جبکہ طالبان سمجھتے ہیں انہوں نے امریکیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مذاکرات کی منسوخی طالبان کو دباؤ میں لانے کے لیے ٹرمپ کی چال بھی ہوسکتی ہے۔ امریکی صدر جن شرائط پر معاہدہ کر رہے تھے اس پر امریکی اسٹیبلشمنٹ راضی نہیں تھی۔ مذاکرات منسوخی کی ایک وجہ طالبان کا رویہ بھی ہے۔ طالبان جتنا معاہدے کے قریب ہوئے اتنا ہی افغان حکومت سے متعلق ان کا رویہ سخت ہوگیا تھا۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے طالبان امریکہ مذاکرات معطل کیے جانے کے اعلان کے بعد امن عمل جاری رکھنے کے لیے چین، پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعاون کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ مذاکرات کی بحالی اور جلد از جلد اطمینان بخش تکمیل علاقائی اور عالمی امن کی سب سے بڑی ضرورت ہے جس کے لیے اس سہہ ملکی اتحاد کو بھی اپنا کردار زیادہ مؤثر طور پر ادا کرنا چاہئے تاکہ خطے کو ہلاکت و تباہی کے ایک نئے دور سے بچایا جاسکے۔ پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کا اسلام آباد میں ہونے والا اجلاس یقیناً امید کی روشن کرن ہے۔

تینوں وزرائے خارجہ نے مشترکہ نیوز کانفرنس میں بتایا کہ تینوں ملکوں نے افغان امن عمل کے سلسلے میں اقتصادیات رابطہ سازی، سکیورٹی، انسدادِ دہشت گردی اور سفارتی تربیت کے شعبوں میں تعاون کے فروغ سمیت پانچ نکاتی معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا مرحلہ وار اور ذمہ دارانہ ہونا چاہئے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کی ضرورت کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ امریکی افواج کی ایک ہی مرحلے میں مکمل واپسی سے مختلف افغان فریقوں میں اسی طرح خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے جیسے سوویت افواج کے انخلا کے بعد شروع ہوئی تھی۔

پاکستان اور چین افغان تنازع کے پُرامن حل کے لیے طالبان اورافغان حکومت میں براہ راست مذاکرات کے خواہاں ہیں کیونکہ مستقبل کے نظام کی تشکیل اسی طرح ممکن ہے۔ مذاکرات کے اگلے مرحلے میں جس کا اہتمام بیجنگ میں کیا جائے گا، بین الافغان مذاکرات کی جانب پیش رفت کی جا سکتی ہے۔

چین، پاکستان اور افغان حکومت کی مشترکہ کاوشوں سے اگر بین الافغان مذاکرات کی راہ کھل سکے تو اس سے وقت کی وہ اصل ضرورت پوری ہو گی جس کے بغیر افغانستان میں کسی ایسی متفقہ اور پائیدار حکومت کا قیام ممکن نہیں۔ چین کی افغانستان میں بحالیٔ امن کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔ اس وقت اگرچہ امریکہ کے ساتھ ساتھ روس بھی بحالیٔ امن کے لیے افغانستان کے مختلف سٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کر رہا ہے لیکن چین نے اپنے طور پر جو کوششیں شروع کی ہیں، وہ خوش آئند ہیں۔ چین کی کوششوں میں خطے کے دیگر ممالک خصوصاً شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو بھی شامل کرنا چاہئے کیونکہ اب ہمیں یہ بتانے والا کوئی نہیں ہے کہ افغانستان میں کیا نیا کھیل شروع ہونے والا ہے۔ ہمیں چینی سیاسی قیادت کے وژن سے رہنمائی لینی چاہئے۔

افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ کو اس سال 25 دسمبر کو پورے 40 سال ہو جائیں گے۔ آج تک وہاں جو ہو رہا ہے، وہ اسی جنگ کا تسلسل ہے۔ یہ معاملے مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوں گے۔ اس صورت حال میں پاکستانی دفتر خارجہ نے بالکل درست طور پر تمام فریقوں کو صبر و تحمل کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ بلاشبہ امریکہ، طالبان، اٖفغان حکومت اور خطے کے عوام سب کا مفاد افغانستان میں پائیدار امن کے قیام ہی سے وابستہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ