’غزہ کا ننھا نیوٹن‘ جس نے اپنی ذہانت سے بجلی پیدا کرنے کی راہ نکال لی

کباڑ سے نکالے گئے دو پنکھوں کو بطور ونڈ ٹربائنز استعمال کرتے ہوئے تباہ حال غزہ کے نوجوان حسام العطار نے بجلی پیدا کر کے اپنے خیمے کو روشن کر دیا۔

نوجوان حسام العطار نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت میں بے گھر ہونے کے بعد اپنے خیمے کو روشن کرنے کے لیے بجلی پیدا کرنے کا طریقہ نکال لیا (روئٹرز)

کباڑ سے نکالے گئے دو پنکھوں اور کچھ تاروں کا استعمال کرتے ہوئے حالیہ اسرائیلی بمباری سے تباہ حال غزہ کی پٹی میں نوجوان حسام العطار نے اپنے اس عارضی خیمے کو روشن کرنے کے لیے بجلی پیدا کرنے کی راہ نکال ہی لی جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ اسرائیل کی بربریت سے بچنے کے لیے پناہ لیے ہوئے ہیں۔

ان کی ذہانت کا اعتراف کرتے ہوئے پناہ گزین کیمپ کے لوگوں نے انہیں ’غزہ کا نیوٹن‘ قرار دیا ہے۔

15 سالہ حسام العطار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو اس بارے میں بتایا: ’میرے اور نیوٹن کے درمیان مماثلت کی وجہ سے آس پاس کے لوگوں نے مجھے غزہ کا نیوٹن کہنا شروع کر دیا۔‘

انہوں نے بتایا: ’نیوٹن ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے جب ایک سیب ان کے سر پر گرا اور انہوں نے کشش ثقل دریافت کی، اسی طرح ہم یہاں اندھیرے اور المیے میں جی رہے ہیں اور اسرائیلی بم ہم پر گر رہے ہیں اس لیے میں نے روشنی کے لیے بجلی پیدا کرنے کا سوچا اور ایسا کر دکھایا۔‘

انگلش سائنس دان آئزک نیوٹن نے 18ویں صدی کے اوائل میں فزکس، ریاضی اور فلکیات میں بے پناہ دریافتیں کی تھیں اور سیب والی کہانی کی وجہ سے انہیں دنیا بھر میں شہرت ملی۔

غزہ کی 23 لاکھ کی آبادی میں سے نصف سے زیادہ اب غزہ کی تنگ پٹی کے جنوبی کنارے رفح میں عارضی پناہ گاہوں میں بجلی سمیت تمام بنیادی ضروریات کے بغیر رہ رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

العطار خاندان نے اپنا خیمہ ایک تباہ شدہ مکان کے قریب لگایا ہوا ہے جس کی چھت پر حسام نے اپنے دو پنکھوں کو ونڈ ٹربائنز کے طور پر نصب کیا ہوا ہے، جو اسے بیٹریاں چارج کرنے کے قابل بناتے ہیں۔

حسام نے پنکھوں کو ان کے خیمے تک جانے والی تاروں سے جوڑ دیا اور روشنی کا نظام بنانے کے لیے سوئچز، لائٹ بلب اور خیمے میں رکھے ہوئے پلائی ووڈ کا ایک ٹکڑا استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ بجلی پیدا کرنے کی ان کی پہلی دو کوششیں ناکام ہوگئی تھیں اور انہیں اس نظام کو تیار کرنے میں مزید کچھ وقت لگا جب تک کہ وہ تیسری کوشش میں ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو گئے۔

انہوں نے کہا: ’میں نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے مزید تیار کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ میں اس خیمے تک، جس میں ہم رہ رہے ہیں، تاروں کو پھیلانے کے قابل ہو گیا تاکہ اسے روشن کیا جا سکے۔‘

ان کے بقول: ’میں بہت خوش تھا کہ میں یہ کرنے میں کامیاب ہوا کیونکہ میں نے اپنے خاندان، اپنی والدہ، اپنے بیمار والد اور اپنے بھائی کے چھوٹے بچوں اور یہاں موجود ہر اس شخص کی تکلیف کو کم کیا، جو اسرائیل کی مسلط کی گئی جنگ سے متاثر ہوا ہے۔‘

مقامی صحت کے حکام کے مطابق اسرائیلی جارحیت میں اب تک 27 ہزار سے زیادہ افراد جان سے جا چکے ہیں اور یہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور بھوک کا سبب بنی ہوئی ہے۔

مایوسی کے درمیان حسام  العطار نے اس انسانی المیے کے باوجود اپنے خوابوں اور عزائم کو مرنے نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا: ’میں بہت خوش ہوں کہ اس کیمپ میں موجود لوگ مجھے غزہ کا نیوٹن کہتے ہیں کیوں کہ میں نیوٹن کی طرح سائنس دان بننے اور ایک ایسی ایجاد کے اپنے خواب کو پورا کرنے کی امید رکھتا ہوں، جس سے نہ صرف غزہ کی پٹی کے لوگوں کو بلکہ پوری دنیا کو فائدہ پہنچے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل